خواجہ میر درد کے کلام میں تصوف کا رنگ غالب ہے اور صوفیانہ حسّیت کے حامل اشعار کی کثرت ہے، لیکن وہ عشقِ حقیقی اور وارداتِ قلبی کے شاعر بھی تھے۔
میر تقی میرؔ نے اپنے اس ہم عصر کو ریختہ کا "زور آور” شاعر کہا تھا۔ مرزا لطف علی صاحب کی "گلشنِ سخن” میں لکھا ہے کہ دردؔ کا کلام سراپا درد و اثر ہے۔ میر حسن نے انھیں آسمانِ سخن کا خورشید قرار دیا اور عبد السلام ندوی نے کہا کہ خواجہ میر دردؔ نے اس زبان کو سب سے پہلے صوفیانہ خیالات سے آشنا کیا۔
دردؔ ایک صاحب اسلوب شاعر تھے جن کی شاعری بنیادی طور پر عشقیہ شاعری ہے۔ ان کا عشق مجازی بھی ہے، حقیقی بھی۔
ان کے کی شاعری میں بے ثباتی و بے اعتباری، بقا اور فنا، مکان و لا مکاں، توکل اور فقر کے مضامین بکثرت ملتے ہیں۔ ان کی ایک مشہور غزل ملاحظہ کیجیے۔
تہمتِ چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے
زندگی ہے یا کوئی طوفاں ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دَم آئے ادھر اودھر چلے
دوستو دیکھا تماشا یاں کا سب
تم رہو خوش، ہم تو اپنے گھر چلے
شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشمِ تر آئے تھے، دامن تر چلے
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
دردؔ کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے