تازہ ترین

خوشی کا راز (اطفالِ ادب سے انتخاب)

باجی آج کل محسوس کر رہی تھیں کہ بشریٰ اب کچھ الجھی الجھی اور پریشان رہنے لگی ہے۔ حالاں کہ ابّا جی نے سینٹ اینس کانونیٹ میں اسے داخل کرا کے اس کی یہ ضد پوری کر دی تھی کہ وہ انگریزی اسکول میں انگریز بچوں کے ساتھ پڑھے گی۔ اب اسے کیا پریشانی تھی، باجی یہی جاننا چاہتی تھیں۔

ایک دن جب وہ سنگار میز کے سامنے کھڑی اپنا منہ آپ چڑا رہی تھی تو باجی نے اسے دیکھ لیا۔ وہ بہت حیران ہوئیں۔ مسکرا کر پوچھا ’’آج ثاقب نہیں ملا منہ چڑانے کو؟

’’اپنا منہ تو ہے۔ ثاقب نہ ہوا تو کیا؟‘‘ بشریٰ نے چوٹی گوندھتے ہوئے چڑ کر کہا۔

’’آخر کیوں بھئی؟‘‘

’’پھر کیا کریں۔ اللہ میاں نے صورت ہی ایسی بنائی ہے آنکھیں دیکھو تو کالی کالی اور سوا سوا انچ لمبی۔ بال کوئی دیکھے تو سمجھے جیسے کسی نے کالک تھوپ دی ہو!‘‘

باجی کو بشریٰ کی اس انوکھی شکایت پر تعجب ہوا۔ انہوں نے ہنس کر پوچھا ’’کس قسم کی آنکھیں تمہیں پسند ہیں؟‘‘

سنہری بال اور نیلی نیلی گول گول آنکھیں‘ جیسی میری کلاس فیلو کونی کی ہیں۔‘‘ اس نے بال سنوارتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔

باجی نے ہنسی ضبط کر کے سمجھایا ’’انگریزی اسکول میں پڑھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صورت بھی انگریزوں جیسی ہوجائے کیا پتہ کونی کو تمہاری کالی آنکھیں بھلی لگتی ہوں۔‘‘ بشریٰ نے کوئی جواب نہ دیا اور بیگ اٹھا کر اسکول چلی گئی۔

اس شام کو وہ کونی کے ساتھ اس کے گھر گئی اور وہاں اس کی شان دار نرسری دیکھی۔ کونی نے ایک بڑی کانچ کی الماری کھولی، جس میں ڈیڑھ دو فٹ لمبی ایک خوبصورت گڑیا تھی۔ اس نے بہت احتیاط کے ساتھ اسے نیچے اتار کر دکھایا۔ بشریٰ نے بے اختیار ہو کر گڑیا کا گلابی گال چوم لیا۔

کونی نے فخر سے کہا۔ ’’ابھی تم نے اس کی باتیں کہاں سنی ہیں۔ لو اب سنو۔‘‘ اور گڑیا سچ مچ بولنے لگی۔ ’’میرے تین سو بچّے ہیں۔ میں ایک ہزار سال کی ہوں۔ میرے غسل خانے میں ایک اژدھا ہے۔‘‘

بشریٰ نے سنا تو کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ’’بھئی یہ تو بہت جھوٹ بولتی ہے۔‘‘ کونی نے مسکرا کر کہا ’’یہ چھ زبانوں میں بات کر سکتی ہے جن میں سے دو تو جاپانی اور روسی ہیں۔‘‘ اس کا نام چارمن چیٹی ہے۔‘‘

اس نے ایک دوسری گڑیا نکالی ’’یہ ٹائٹی ٹیبرس ہے۔‘‘ میز پر رکھتے ہی گڑیا باقاعدہ دھاروں دھار آنسو بہانے لگی۔ کونی دوڑ کر اس کے لئے دودھ لے آئی، جسے اس نے مزے لے لے کر پی لیا اور بلبلے بھی اڑائے۔

’’میرے خدا‘‘ بشریٰ نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر کہا’’اتنی پیاری گڑیاں میں نے آج تک نہیں دیکھی تھیں۔‘‘

’’ابھی تو تم نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔‘‘ کونی نے شان سے کہا اور ایک تیسری گڑیا دکھائی، جس کا ایک پیچ گھماتے ہی اس کے سر پر سچ مچ بال اگ آئے۔

’’اس کا نام کیا ہے بشریٰ نے گڑیا کے نرم بالوں پر اپنی انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔

’’ٹریسی۔‘‘ اس کے علاوہ بشریٰ نے اور بہت سے عجیب اور انوکھے کھلونے دیکھے۔ ایک ڈوری کو کھینچتے ہی دو کٹھ پتلیاں باتیں کرنے لگیں۔ ایک رائفل سے جب فائر کئے گئے تو چھوٹا سا ریچھ چیختا چلاتا گرتا پڑتا ساری نرسری میں دوڑ لگانے لگا۔ بانسری کی آواز سن کر ایک کتا اترا اترا کر چلنے لگا۔ بشریٰ کو محسوس ہوا جیسے وہ پریوں کی دنیا میں پہنچ گئی ہو۔ اس کا جی چاہا کہ ہمیشہ کے لئے وہیں رہ جائے۔

جب کونی نرسری کی سیر کرا چکی تو بشریٰ نے حسرت سے پوچھا۔
’’یہ سب کھلونے تمہارے پاس کہاں سے آئے؟‘‘ کونی نے کسی ہنس کی طرح گردن اٹھا کر کہا۔ ’’میرے ڈیڈی امریکہ سے آتے ہوئے لائے تھے۔ بشریٰ نے ٹھنڈا سانس لی اور گھر لوٹ آئی۔

گھر آتے ہی بشریٰ نے اپنے کھلونے کا جائزہ لیا ایک گڈے کو ہاتھ میں لے کر الٹ پلٹ کر دیکھا اور فرش پر دے مارا۔ وہ گویا احتجاجاً بولا ’’پیں‘‘ دوسرے لمحے ربر کا ایک خرگوش پھدک پھدک کر الٹا ہو گیا۔ تیسرا نمبر ایک چست و چالاک جاپانی گڑیا کا تھا، جو نیچے گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ ’’کس کام کے ہیں یہ لوگ‘‘ وہ بڑبڑائی، ’’کوئی گونگا، کوئی بدصورت، کوئی نکی تو کوئی چڑیل۔‘‘ وہ تمام گڈے گڑیاں، جن سے بشریٰ کو اتنا پیار تھا۔ جنہیں سردیوں کی راتوں میں وہ ننھے ننھے لحافوں میں سلایا کرتی، آج زمین پر ٹوٹے پھوٹے پڑے تھے اور بشریٰ کو کوئی افسوس نہ ہوا۔

اس کی اس حرکت پر بشریٰ کو خوب ڈانٹ پڑی۔ امی ابّا نے کبھی فرمائش نہ پوری کرنے کی دھمکیاں دیں۔ بھائی جان نے ’’ناشکری چڑیل‘‘ کا خطاب دیا۔ چھوٹے بھائی ثاقب نے ’’توڑ پھوڑ‘‘ نام رکھ دیا۔ باجی کی نصیحتیں الگ سننی پڑیں۔ غریب بشریٰ کا وقت اس کوئل کی طرح اداس گزرنے لگا جسے چہکنے کو ہری بھری ڈالیاں نہ ملی ہوں!

ایک دن بادل گھر آئے۔ اتنے کالے بادل کہ بشریٰ کے بالوں سے ان کا رنگ مل گیا۔ ان کی گرج برس دیکھنے کے لئے وہ برآمدے میں چلی آئی۔ کچھ ہی دیر میں موٹی موٹی بوندیں ٹپ ٹپ گر کر سوندھی خوشبو اڑانے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے زمین بھیگ گئی۔ بارش کا نظارہ کرتے کرتے اس کی نظر ایک چھوٹی سی لڑکی پر پڑی، جو ایک بڑھیا کا ہاتھ تھامے تیز تیز قدموں سے اسی کی طرف آ رہی تھی۔بشریٰ نے انہیں برآمدے میں پناہ دے دی۔ بڑھیا کے ہاتھ میں کشکول دیکھ کر اسے سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وہ لوگ کون تھے۔ اس عورت کے چہرے پر دو آنکھوں کی بجائے بدنما سرخ بے نور گڑھے تھے۔ خدا جانے کیوں بشریٰ کو جھرجھری سی آ گئی۔ وہ دوڑ کر اندر آ گئی اور شیشہ اٹھا کر اپنا چہرہ دیکھا۔ اپنی آنکھوں کا بڑھیا کی بے نور آنکھوں سے مقابلہ کیا اور یہ سوچ کر اسے تعجب ہوا کہ اس سے پہلے اسے اپنی آنکھیں اتنی خوبصورت، اتنی چمکیلی کیوں نہیں دکھائی دی تھیں؟ وہ برآمدے میں واپس لوٹ آئی۔ اس وقت وہ لڑکی جھک کر نیچے سے کچھ اٹھا رہی تھی۔ بشریٰ کو دیکھتے ہی اس نے گھبرا کر ہاتھ کھینچ لیا۔ بشریٰ نے جھانک کر دیکھا تو اسے اپنی ٹوٹی ہوئی گڑیا کا اوپر کا دھڑ نظر آیا۔

’’اٹھا لو۔ اٹھا لو۔‘‘ بشریٰ نے لڑکی سے کہا اور اس نے خوش ہو کر گڑیا کو اٹھا لیا۔ کرتے کے دامن سے بارش کے قطرے اور مٹی کے ذرے صاف کئے اور چوم کر اسے جھولی میں ڈال لیا وہ اتنی جلدی بھول گئی تھی کہ بشریٰ سامنے کھڑی ہے۔ پھر جب اس نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا تو دانتوں سے زبان کاٹ لی، بشریٰ اندر چلی گئی۔ باجی کے پاس سے گزرتے گزرتے بولی ’’باجی اب نیل آنکھیں نہیں چاہئیں۔‘‘

باجی نے مسکرا کر کہا ’’مجھے اس کی وجہ معلوم ہے۔‘‘ شاید انہوں نے بشریٰ کو برآمدے میں کھڑا دیکھ لیا تھا۔ کہ وہ اسے ڈھونڈتی ہوئی جب اسی کے کمرے میں آئیں، تو بشریٰ کو اپنے تمام کھلونے دوبارہ سنوار کر رکھتے ہوئے پایا۔

’’ہم نے کہا تھا نا‘‘ وہ بولیں۔ ’’اچھے اور بلند ارادوں کو پورا کرنے کے لئے ہمیشہ اپنے سے اونچوں کو دیکھنا چاہئے اور جہاں تک صورت، ٹھاٹ باٹ، امیری اور شان و شوکت کا تعلق ہے۔‘‘

یہ کہہ کر وہ رک گئیں اور بشریٰ نے اپنی کالی آنکھیں اٹھا کر جملہ پورا کیا، ’’اپنے سے کم تر کو دیکھو۔۔۔ اور اسی میں خوشی کا راز ہے۔ ہے نا میری باجی؟‘‘

آج پہلی بار باجی کی نصحیت کا مطلب اس کی سمجھ میں آیا تھا!

(مصنّف:‌ فریدہ خان)

Comments

- Advertisement -