تازہ ترین

سیشن جج وزیرستان کو اغوا کر لیا گیا

ڈی آئی خان: سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت...

سولر بجلی پر فکسڈ ٹیکس کی خبریں، پاور ڈویژن کا بڑا بیان سامنے آ گیا

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے سولر بجلی پر فکسڈ...

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے بعد خود کشی کا رنگ دیے جانے کا انکشاف، رپورٹ

پشاور: صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ہیومن رائٹس کمیشن اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبہ کے پی کے میں ایک سال میں 22 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، 43 کا ریپ ہوا جب کہ 19 نے مبینہ طور پر خود کشی کی۔

خیبر پختون خوا سمیت ملک بھر میں خواتین اور بچوں پر تشدد کے واقعات آئے دن رونما ہو رہے ہیں، خواتین پر تشدد کے بڑھتے واقعات پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے، اور حکومت سے ان واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان میں خواتین کو درپیش مسائل پر بات تو کی جاتی ہے، حکومت قانون سازی بھی کرتی ہے، لیکن پھر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔

عورت فاؤنڈیشن کی ریجنل ڈائریکٹر شبینہ ایاز نے بتایا کہ ہیومن رائٹس کمیشن رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں 22 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، خواتین پر تشدد کے واقعات بھی تواتر کے ساتھ رپورٹ ہو رہے ہیں، خیبر پختون خوا میں گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے علاوہ مختلف طریقوں سے خواتین کے ہراسانی کے واقعات میں بھی تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے خواتین میں ذہنی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں اور خود کشی کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

قتل یا خود کشی؟

شبینہ ایاز نے بتایا کہ سوات اور چترال میں خاص طور پر خواتین میں خودکشی اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات پیش آ رہے ہیں، اور گزشتہ 5 ماہ کے دوران 19 خواتین نے خود کشی کی ہے، لیکن پولیس تفتیش کے دوران پتا چلا کہ مبینہ خود کشی کرنے والی بیش تر خواتین کو قتل کیا گیا ہے، جو تشویش کا باعث ہے۔ شبینہ ایاز نے بتایا کہ خواتین پر تشدد کیا جاتا ہے اور جب تشدد میں خواتین ہلاک ہو جاتی ہیں تو پھر ان کو خود کشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔

قوانین موجود پھر بھی واقعات میں اضافے کی وجہ کیا؟

پشاور ہائیکورٹ کی وکیل اور سماجی کارکن مہوش محب کاکاخیل نے بتایا کہ 2021 میں خیبر پختون خوا اسمبلی سے گھریلو تشدد کا بل پاس ہوا ہے لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ جسم ہو اور اس میں روح نہ ہو، کیوں کہ اس ایکٹ کی روح ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹیز ہے لیکن ابھی تک یہ کمیٹیز نوٹیفائی نہیں ہوئیں، جس کی وجہ سے خواتین کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

انھوں نے کہا کسی خاتون پر تشدد ہوتا ہے اور وہ پولیس اسٹیشن جا کر ایف آئی آر درج کرنا چاہتی ہے تو پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرتی، زیادہ سے زیادہ پولیس روزنامچہ درج کر دیتی ہے اور ایک دو دن بعد اس شخص کی ضمانت ہو جاتی ہے اور پھر مسئلہ اور بڑھ جاتا ہے، کیوں کہ تشدد کرنے والا جب جیل سے واپس گھر آتا ہے تو خاتون پر اور بھی تشدد شروع کر دیتا ہے اور اس طرح بات قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے، اس کا سدباب صرف پروٹیکشن کمیٹیز ہیں۔

خواتین کے ساتھ ساتھ پولیس بھی قانون سے بے خبر

سماجی کارکن صائمہ منیر نے بتایا کہ قوانین تو بنائے جاتے ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا، پارلیمنٹرین اسمبلی سے بل منظور کرتے ہیں اس پر عمل درآمد کرانا بھول جاتے ہیں۔ صائمہ منیر نے بتایا کہ گھریلو تشدد بل کو منظور ہوئے 2 سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے لیکن آج تک اس قانون کے تحت ایک بھی کیس تھانے میں درج نہیں ہوا کیوں کہ خواتین کو اس قانون کے بارے میں علم ہی نہیں ہے اور نہ پولیس کو پتا ہے کہ یہ قانون کیا ہے۔

مہوش محب کاکاخیل ایڈووکیٹ بھی صائمہ منیر کی بات سے اتفاق کرتی ہیں، انھوں نے بتایا کہ قانون بنایا جاتا ہے لیکن قانون سازی کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہوتا، گھریلو تشدد بل اسمبلی سے منظور ہوا ہے لیکن پولیس کو اس کے بارے میں کچھ معلومات نہیں ہیں۔ اب پولیس کو اس حوالے سے ٹریننک دی جا رہی ہے کہ اگر کوئی خاتون تشدد کا شکار ہوئی ہے تو اس ایکٹ کے تحت ملزمان کو چارج کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ خواتین کے مسائل پر ہونے والی قانون سازی پر صوبے کے مختلف پولیس لائنز جا کر اہلکاروں کو لیکچر بھی دے رہی ہیں۔

مہوش کے مطابق تشدد کی روک تھام اس وقت تک مشکل ہے جب تک لوگوں کو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس سے آگاہی نہ ہو، یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی خاتون پر تشدد کیا جاتا ہے تو وہ پہلے تو اس کی رپورٹ درج نہیں کرتی اور اگر کوئی خاتون رپورٹ درج کرنا چاہے تو پھر پولیس اس کی رپورٹ نہیں لیتی، جب تک معاشرے میں اس کے بارے میں مکمل آگاہی نہیں ہوگی یہ مسئلہ برقرار رہے گا۔

جرم ثابت ہونے پر سزا کتنی ہوگی؟

گھریلو تشدد کے قانون کے مطابق خواتین پر تشدد کرنے والے ملزم کو کم از کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ 5 سال تک سزا ہوگی، اس کے علاوہ جرم ثابت ہونے پر جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا، اگر کوئی شوہر اپنی بیوی پر تشدد کرتا ہے اور بیوی اس کے ساتھ مزید نہیں رہنا چاہتی تو ملزم خاتون کو خرچہ بھی دے گا اور اگر بچے بھی ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو بچوں کا خرچ بھی وہی مرد برداشت کرے گا۔

ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹیز کیوں ضروری ہیں اور یہ کام کیسے کریں گی؟

جب کوئی خاتون تشدد کا شکار ہوتی ہے تو وہ پہلے ڈسٹرکٹ کمیٹی کو شکایت درج کرے گی، پروٹیکشن کمیٹی پہلے فریقین کے درمیان مصالحت سے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کرے گی، یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک جرگہ میں ہوتا ہے کہ بات چیت سے مسئلے کا حل نکالا جائے۔

مسئلے کا حل نہیں نکلتا تو پھر کمیٹی متاثرہ خاتون کا بیان لے گی اور دوسرے فریق کو نوٹس جاری کرے گی، کمیٹی میں ایک سیکریٹری ہوگا جس کی اپنی ذمہ داریاں ہوں گی، جتنے سروس فراہم کرنے والے سرکاری اور نجی ادارے ہوں گے ان کی ایک ڈائریکٹری کمیٹی میں ہوگی، کسی بھی متاثرہ خاتون کو مدد کی ضرورت ہوگی تو سیکریٹری ان کو فراہمی کے لیے اقدامات کرے گا، لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کمیٹیز ہے نہیں، کمیٹیز نوٹیفائی ہو جاتی ہیں تو خواتین کو بڑی آسانی ہوگی۔

بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے؟

ریجنل ڈائریکٹر عورت فاؤنڈیشن شبینہ ایاز نے بتایا کہ مختلف تنازعات کے حل کے لیے تھانوں کی سطح پر قائم مصالحتی کمیٹیوں (ڈی آرسیز) میں خواتین نمائندگی بڑھانی چاہیے اور ضم اضلاع میں بھی فوری طور پر ڈی آرسیز قائم ہونی چاہیئں، تاکہ ضم اضلاع میں خواتین کو درپیش وراثت اور دیگر مسائل کے حل کے لیے اقدامات اٹھائے جا سکیں۔

الیکشن وقت پر نہیں ہوتے تو کمیٹیوں کی تشکیل میں تاخیر ہو سکتی ہے

خواتین کی حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی رہنما صائمہ منیر نے بتایا کہ اب اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہے ہیں، اب الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں، اگر فوری الیکشن نہیں ہوتے اور نگران حکومتیں قائم رہتی ہیں تو اس سے گھریلو تشدد بل کے تحت کمیٹیوں کی تشکیل میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ خواتین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے حکومت، ضلعی انتظامیہ، محکمہ پولیس سمیت تمام متعلقہ اداروں کے درمیان کوآرڈی نیشن بڑھانے کی ضرورت ہے۔

Comments

- Advertisement -