پاکستان میں موروثی سیاست ہمیشہ سے زیر بحث رہی ہے لیکن خیبر پختونخوا کی سیاست میں موروثیت کا عنصر سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ ساتھ صوبے میں حکومت کرنے والے سابق وزرائے اعلیٰ میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبے کی سیاست گزشتہ کئی دہائیوں سے سابق وزرائے اعلی کے خاندانوں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمود مرحوم اس سلسلے میں سرفہرست ہیں، جن کے صاحب زادے مولانا فضل الرحمان جے یو آئی ف کے سربراہ بھی ہیں۔ 8 فروری کے عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمان، ان کے صاحب زادوں مولانا اسعد محمود اور مولانا اسجد محمود کے علاوہ بھائی مولانا لطف الرحمان بھی امیدوار ہیں، جب کہ ایک بھائی مولانا عطاء الرحمان سینیٹر اور سمدھی غلام علی صوبے کے گورنر اور ان کے صاحب زادے زبیر علی پشاور کے میئر ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان ہی کی تحصیل کلاچی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعلیٰ سردار عنایت اللہ خان گنڈاپور کے بیٹوں کے بعد اب ان کا نوجوان پوتا سردار آغاز اکرام اللہ گنڈاپور اپنے دادا کی سیاست سنھبال رہا ہے، اور گزشتہ اسمبلی میں سردار اکرام اللہ گنڈاپور کی شہادت کے بعد کم عمر ترین رکن کے پی اسمبلی کا اعزاز بھی اپنے نام کر چکے ہیں، 2002 میں سردار عنایت اللہ گنڈاپور اور سردار اسرار اللہ گنڈاپور واحد باپ بیٹے تھے جو انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے اسمبلی پہنچے تھے۔
پشاور سے سابق وزیر اعلیٰ ارباب جہانگیر خان خلیل مرحوم کے صاحب زادے اور پی پی پی رہنما ارباب عالمگیر خان خود قومی اسمبلی جب کہ بیٹا صوبائی اسمبلی کا امیدوار ہے، ارباب عالمگیر کی اہلیہ عاصمہ ارباب بھی مخصوص نشستوں پر پہلی ترجیح کے طور پر موجود ہیں۔
چارسدہ سے تعلق رکھنے والے آفتاب شرپاؤ دو بار صوبے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنا کر وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور اب وہ قومی وطن پارٹی کے مرکزی چیئرمین ہیں جب کہ ان کے صاحب زادے سکندر حیات شیرپاؤ پارٹی کے صوبائی صدر اور دونوں باپ بیٹے گزشتہ کئی انتخابات سے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے قسمت آزمائی کرتے آ رہے ہیں، جس میں کبھی کامیاب تو کبھی شکست ان کا مقدر بنی ہے۔
اسی طرح ن لیگ کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ سردار مہتاب احمد خان جو کہ صوبے کے گورنر بھی رہے ہیں، وہ بھی دو بار اپنے صاحب زادے سردار شمعون یار خان کو انتخابی میدان میں اتار چکے ہیں، جس میں ایک بار انھیں کامیابی بھی ملی اور وہ کے پی اسمبلی کی رکنیت کا اعزاز بھی حاصل کر چکے ہیں۔
بنوں سے جمیعت علماء اسلام ف کے سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی بھی موروثی سیاست کے فروغ میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ خود بنوں سے قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے دو صاحب زادے زیاد اکرم درانی اور ذوہیب اکرم درانی کے علاوہ کزن اعظم خان درانی بھی انتخابی میدان میں موجود ہیں۔
نوشہرہ سے سابق وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی پی کے چیئرمین پرویز خٹک جو کچھ عرصہ قبل تک پی ٹی ائی کے صوبائی صدر تھے اور اقتدار میں آنے سے پہلے پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے موروثی سیاست کے خلاف ایک توانا آواز تھے، مگر وزیر اعلیٰ بنتے ہی موروثی سیاست کے علم بردار بنتے نظر آئے۔ ایک وقت میں وہ خود وزیر دفاع جب کہ بھائی اور بیٹا رکن کے پی اسمبلی اور داماد اور بھابھی رکن قومی اسمبلی تھے اور 8 فروری کے انتخابات میں بھی اب خود ایک قومی جب کہ دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر امیدوار ہیں۔ ان کے دو صاحب زادے ابراہیم خٹک اور اسماعیل خٹک صوبائی جب کہ داماد ڈاکٹر عمران خٹک قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ پرویز خٹک کا ایک بیٹا اسحاق خٹک نوشہرہ کا تحصیل ناظم بھی ہیں۔
لیکن خیبر پختونخوا کی عملی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے والے ایک سابق وزیر اعلیٰ ایسے بھی ہیں جو پارٹی میں ایک طاقت ور پوزیشن ہونے کے باوجود نہ تو اپنے بھائی بیٹے یا قریبی عزیز کے لیے ٹکٹ لیتے ہیں اور نہ ہی مخصوص نشست پر ان کی فیملی سے کوئی خاتون رکن اسمبلی بنتی ہے۔ وہ ہیں اے این پی کے مرکزی نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی جو صوبے اور بالخصوص مردان کی سیاست میں ایک شائستہ اور متحرک سیاسی قیادت کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مخالف سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی انہی خوبیوں کی وجہ سے ان کی عزت کرتی ہے۔