لاہور: آفشور کمپنی کے الزام کی زد میں آنے والے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فرخ عرفان نے قبل از وقت اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
نمائندہ اے آر وائی کے مطابق جسٹس فرخ عرفان کےخلاف ریفرنس کی سماعت چل رہی ہے جبکہ اُن پر آف شور کمپنی رکھنے کا بھی الزام تھا جس کی بنیاد پر انہوں نے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا۔
ریفرنس کی سماعت کے آغاز پر ججز کو بتایا گیا کہ فرخ سلیم اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے جس کے بعد کارروائی ختم کردی گئی۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فرخ عرفان 20 فروری 2010 کو ایڈیشنل جج تعینات ہوئے اور اُن کی مدتِ ملازمت 22 جون 2020 کو پوری ہونی تھی تاہم انہوں نے ریفرنس کی وجہ سے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا اور اسے صدر مملکت کو ارسال کردیا۔
مزید پڑھیں: پاناما لیکس کے معاملے پر پاکستان نے قانونی مدد طلب نہیں کی، جرمن صحافی کا انکشاف
جسٹس فرخ عرفان لاہور ہائی کورٹ کے ججز کی سنیارٹی میں پانچویں نمبر پر تھے اُن کے مستعفیٰ ہونے کے بعد اب ججز کی کُل تعداد 46 رہ جائے گی۔
جسٹس فرخ عرفان نے حمزہ شہباز کا نام ای سی ایل سے نکالنے جیلوں، عمارات میں معذوروں کے لیے سہولیات فراہم کرنے کے جیسے تاریخی فیصلے جاری کیے۔
یاد رہے کہ سن 2016 اپریل میں بحراوقیانوس کے کنارے پر واقع ملک پاناما کی صحافتی تنظیم آئی سی آئی جے نے غیر قانونی اثاثہ جات کی ڈیڑھ لاکھ دستاویزات پامانہ پیپرز کے نام سے شائع کی تھیں، جس کے باعث دنیائے ممالک کی کئی حکومتیں ہل گئیں تھیں۔
پاناما لیکس میں یورپی ملک آئس لینڈ کے وزیراعظم سگمندر گنلگسن اور اُن کی اہلیہ کا نام سامنے آنے کے بعد عوام نے شدید احتجاج کیا، جس کے بعد انہیں مجبورا وزارت سے مستعفیٰ ہونا پڑا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا بھرمیں تہلکہ مچانے والی پاناما پیپرز کی نئی لیکس منظرعام پر
دستاویزات میں سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا نام بھی سامنے آیا، جس کے بعد انہیں عدالتوں میں پیش ہوکر صفائی دینی پڑی تھی۔
پاناما دستاویزات میں سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سمیت دیگر 400 سے زائد افراد کے نام سامنے آئے تھے، شریف خاندان کی آفشور کمپنیاں منظر عام پر آنے کے بعد نوازشریف نے قوم سے خطاب کر کے مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے تھے۔