اگر بحرانی کیفیت میں آدمی کے پاس دو راستے ہوں تو اکثر لوگ غلط کا انتخاب کریں گے۔ اگر کسی کا آغاز اچھا ہو تو اس امکان کو رد نہ کیجیے کہ اس کا انجام برا ہوسکتا ہے۔
جس کام کا آغاز بد ہو اس کا انجام بدترین ہوگا۔ آپ کی دی ہوئی وہ کتاب کبھی واپس نہیں آتی جسے آپ بطور خاص اپنے ریکارڈ رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کے گھر میں کوئی پرانی یا بے کار چیز بہت عرصے سے پڑی ہوئی ہے تو آپ اسے پھینک دیتے ہیں، کسی کو دے دیتے ہیں یا اونے پونے داموں بیچ دیتے ہیں۔ پھر جیسے ہی وہ چیز گھر سے نکلتی ہے اس کے اگلے دن آپ کو اس کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ آپ بازار سے کوئی چیز (کپڑا، گھڑی، کیمرا وغیرہ) بہت بھاؤ تول کر کے خریدتے ہیں۔ آپ دکان چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں تو قریب کی کسی دکان میں اسی برانڈ کی وہی چیز کم قیمت پر دست یاب ہوگی۔ آپ کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں کہ میں نے دو دکانیں اور کیوں نہ دیکھ لیں، لیکن اگر آپ دو دکانیں اور دیکھ لیتے تو وہ چیز ان کے بعد کسی دکان پر سستی ملتی۔
چند سال قبل ہمیں براستہ دبئی لندن جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاز کراچی میں تاخیر کا شکار ہوگیا جب وہ دیر سے دبئی پہنچا تو لندن کی رابطہ پرواز وقت پر نکل چکی تھی کیوں کہ ’مرفی‘ کا قانون ہے ”آپ جس جہاز میں سفر کررہے ہیں اگر وہ لیٹ ہے تو وہ جہاز جس سے آپ کو آگے سفر جاری رکھنا ہے وقت پر روانہ ہوجائے گا۔“ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب ہم محفل میں کسی سے بحث کرتے ہیں تو تمام قائل کر دینے والے اور بر محل نکات ہمارے ذہن میں اس وقت آتے ہیں جب بحث ختم ہوجاتی ہے اور ہم لوگوں کو متاثر کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
(مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے قلم سے)