کووڈ 19 کی شرح مردوں اور خواتین میں یکساں پائی جاتی ہے مگر حال ہی میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ لانگ کووڈ کا خطرہ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں زیادہ ہوتا ہے۔
بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپان میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ خواتین میں کووڈ 19 کی طویل المعیاد علامات کا امکان مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
نیشنل سینٹر فار گلوبل ہیلتھ اینڈ میڈیسن کی اس تحقیق میں بیماری کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد علامات یا لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد کے بارے میں جاننے کے لیے سروے کیا گیا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ خواتین میں بیماری سے ریکوری کے بعد کووڈ کی طویل المعیاد علامات جیسے تھکاوٹ اور سونگھنے یا چکھنے کی حسوں کے مسائل کا امکان مردوں سے زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق خواتین کو مردوں کے مقابلے میں طویل المعیاد بنیادوں پر تھکاوٹ کا تجربہ دگنا جبکہ بالوں کے گرنے کا سامنا 3 گنا زیادہ ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں فروری 2020 سے مارچ 2021 کے دوران کووڈ 19 کو شکست دینے والے مریضوں سے سروے کیا گیا جس میں 457 افراد نے اپنی رائے دی۔
سروے میں مختلف سوالات پوچھے گئے جیسے بیماری کی ابتدائی علامات اور ریکوری کے بعد طویل المعیاد علامات وغیرہ۔
جب محققین نے ڈیٹا کا موازنہ کیا تو انہوں نے دریافت کیا کہ خواتین میں چکھنے کی حس سے متعلق مسائل کا امکان 60 فیصد جبکہ سونگھے کے مسائل کا امکان 90 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ سونگھنے اور چکھنے کی حسوں کے مسائل جوان افراد یا دبلے پتلے افراد میں زیادہ نظر آتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق 120 افراد یا 26 فیصد کو کووڈ کو شکست دینے کے بعد مختلف علامات کا سامنا 6 ماہ بعد بھی ہورہا تھا جبکہ 40 یا 9 فیصد میں لانگ کووڈ کا مسئلہ ایک سال بعد بھی موجود تھا۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ کووڈ 19 کی معمولی شدت سے متاثر کچھ مریضوں کو بھی طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوا۔
محققین نے بتایا کہ مرد، بزرگوں اور موٹاپے کے شکار افراد میں بیماری کے ابتدائی مرحلے میں علامات کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے مگر بیماری کے مابعد اثرات جیسے چکھنے کے مسائل سے محرومی کا خطرہ بالکل مختلف گروپس میں زیادہ ہوتا ہے، مگر اب تک لانگ کووڈ کی وجوہات معلوم نہیں۔