تازہ ترین

آئی ایم ایف کا پاکستان کو سخت مالیاتی نظم و ضبط یقینی بنانے کا مشورہ

ریاض: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے سخت...

اسحاق ڈار ڈپٹی وزیراعظم مقرر

وزیرخارجہ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم مقرر کر دیا...

جسٹس بابر ستار کے خلاف بے بنیاد سوشل میڈیا مہم پر ہائیکورٹ کا اعلامیہ جاری

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کی امریکی...

وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب، صدر اسلامی ترقیاتی بینک کی ملاقات

وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوسرے...

لاٹری

جلدی مالدار بن جانے کی ہوس کسے نہیں ہوتی۔ ان دنوں جب فرنچ لاٹری کے ٹکٹ آئے تو میرے عزیز دوست بکرم سنگھ کے والد، چچا، بھائی، ماں سبھی نے ایک ایک ٹکٹ خرید لیا۔ کون جانے کس کی تقدیر زورکرے، روپے رہیں گے تو گھر ہی میں، کسی کام کے نام آئیں۔

مجھے بھی اپنی تقدیر آزمانے کی سوجھی، اس وقت مجھے زندگی کا تھوڑا بہت تجربہ ہوا تھا، وہ بہت ہمت افزا نہ تھا لیکن بھئی تقدیر کا حال کون جانے، گاہ باشد کہ کودک ناداں۔ ایک بار اپنی تقدیر آزمانے کو دل بیتاب ہو گیا اور بکرم بھی دوسروں کا دست نگر نہ بننا چاہتا تھا۔ جس کےنام روپے آئیں گے۔ وہ خود موج اڑائے گا۔ اسے کون پوچھتا ہے۔ دس پانچ ہزار اس کے حصے میں آ جائیں گے، مگر اس سے کیا ہو گا۔ اس کی زندگی میں بڑے بڑے منصوبے تھے۔ پہلے تو ساری دنیا کی سیاحت کرنی تھی۔ ایک ایک کونے کی۔ عام سیاحوں کی طرح نہیں ہو کہ تین ہفتہ میں ساری دنیا میں آندھی کی طرح اڑ کر گھر آپہنچے۔ وہ ایک خطہ میں کافی عرصہ تک رہ کر وہاں کے باشندوں، معاشرت کا مطالعہ کرنا چاہتا تھا۔ پیرو برازیل، مڈغاسکر اور اربی سینیا، یہ سبھی دشوار گزار خطّے اس کے پروگرام میں تھے۔ پھر اسے ایک بہت بڑا کتب خانہ تیار کرانا تھا جس میں ساری دنیا کی کتابیں رکھی جائیں۔ اس کے علاوہ لاکھ تک صرف کرنے کو تیار تھا۔ والد یا چچا کے ہاتھ روپے آئے تو شاید دو چار ہزار مل جائیں۔ بڑے بھائی کے نام آئے تو دھیلا بھی نہ ملے گا۔ ہاں اماں کے ہاتھ آئے تو بیس ہزار یقینی ہیں، مگر اس سے کہیں پیاس بجھتی ہے۔

منصوبے تو اتنے اونچے تھے۔ لیکن روپے نہ اس کے پاس تھے نہ گھر سے روپے ملنے کی اسے امید تھی۔ ممکن تھا بہت ضد کرتا تو مل بھی جاتے مگر وہ اس امر کو پوشیدہ رکھنا چاہتا تھا۔ میرے پاس بھی روپے تھے، میں اسکول میں ماسٹر تھا، بیس روپے ملتے تھے۔ دس گھر بھیج دیتا، دس میں لشتم پشتم اپنا گزارہ کرتا۔ ایسی حالت میں پانچ روپے کے ٹکٹ خریدنا میرے لئے مشکل ہی نہیں محال تھا۔

بکرم نے کہا، ’’کہو تو میں اپنی انگوٹھی دوں، کہہ دوں گا انگلی سے پھسل پڑی۔‘‘ میں نے منع کیا،’’ نہیں چوری فوراً کھل جائے گی اور مفت میں شرمندگی ہو گی۔ ایسا کام کیوں کرو کہ بعد میں خفت ہو۔‘‘ یہ تجویز ہوئی کہ ہم دونوں اپنی اپنی پرانی کتابیں کسی سیکنڈ ہینڈ کتابوں کے دکان دار کے ہاتھ بیچ ڈالیں اور اس روپے سے ٹکٹ خریدیں۔ ہم دونوں کے پاس اسکول کی کتابیں ارتھ میٹک، الجبرا، جیومیٹری، جغرافیہ موجود تھیں۔ میں تو ماسٹر تھا کسی بک سیلر کی دکان پر جاتے جھینپتا تھا۔ قریب قریب سبھی مجھے پہچانتے تھے۔ اس لئے یہ خدمت بکرم کے سپرد ہوئی اور وہ آدھ گھنٹے میں پانچ روپے کا ایک نوٹ لئے آپہنچا۔ کتابیں پچیس سے کم کی نہ تھیں مگر یہ پانچ اس وقت ہمارے لئے پانچ ہزار کے برابرتھے۔ فیصلہ ہوگیا۔ ہم دونوں سانجھے میں ٹکٹ لیں گے آدھا میرا ہوگا آدھا بکرم کا، دس لاکھ میں پانچ لاکھ میرے حصہ میں آئیں گے۔ پانچ لاکھ بکرم کے، ہم اپنے اسی میں خوش تھے۔ ہاں بکرم کواپنی سیاحت والی اسکیم میں کچھ ترمیم کرنا پڑی۔ کتب خانہ کی تجویز میں کسی قسم کی قطع و برید ناممکن تھی۔ یہ بکرم کی زندگی کا مقصدِ دلی تھا۔

میں نے اعتراض کیا، ’’یہ لازمی نہیں کہ تمہارا کتب خانہ شہر میں سب سے زیادہ شاندار ہو ایک لاکھ بھی کچھ کم نہیں ہوتا۔‘‘

بکرم مستقل تھا، ’’ہرگز نہیں، کتب خانہ تو شہر میں لاثانی ہو گا۔ کیوں کہ تم کچھ مدد نہ کروگے؟‘‘

میں نے اپنی مجبوری کا اظہار کیا، ’’بھئی میری ضرورتیں مقابلتاً کہیں زیادہ ہیں۔‘‘

’’تمہارے گھرمیں کافی جائیداد موجود ہے۔ والدین بھی زندہ ہیں، کسی قسم کا بار تمہارے اوپر نہیں ہے۔ میرے سر تو ساری گرہستی کا بوجھ ہے۔ دو بہنوں کی شادیاں ہیں، دو بھائیوں کی تعلیم ہے۔ نیا مکان بنوانا ہی پڑے گا۔ میں تو ایسا انتظام کروں گا کہ سارے مصارف سود سے نکل آئیں اور اصل میں داغ نہ لگنے پائے۔ کچھ ایسی قیدیں لگا دوں گا میرے بعد کوئی اصل کو نہ نکال سکے۔‘‘

’’تم نے سوچی تو بہت دور کی ہے، لیکن بینکوں کا شرح سود گرا ہوا ہے۔‘‘

’’پانچ لاکھ کی رقم بھی تو کم نہیں۔ اگر پانچ فیصدی بھی ہے، پچیس ہزار سالانہ ہوئے، تھوڑے ہیں۔ ہم نے کئی بینکوں کی شرحِ سود دیکھا۔ واقعی بہت کم تھا۔ خیال آیا کیوں نہ لین دین میں کاروبارشروع کر دیا جائے۔ بکرم اور میں دونوں کی مشترکہ کمپنی ہو۔ لین دین میں سود بھی اچھا ملے گا اور اپنا رعب داب رہے گا۔ اچھے اچھے گھٹنے ٹیکیں گے، ہاں جب تک اچھی جائیداد نہ ہو کسی کوروپیہ نہ دیا جائے، کتنا ہی معتبر اسامی ہو، مجبوری معتبروں کو بھی غیر معتبر بنا دیتی ہے، جائیداد کی کفالت پر رہن نامہ لکھا کر روپیہ دینے میں کوئی اندیشہ نہیں رہتا۔ روپے نہ وصول ہوں تو جائیداد تو مل ہی جاتی ہے۔‘‘

’’مگر لاٹری کے ٹکٹ پر دو نام نہیں رہ سکتے کس کا نام دیا جائے۔‘‘

بکرم نے کہا، ’’میرا نام رہے گا۔‘‘

’’کیوں میرا کیوں نہ رہے گا؟‘‘

’’تمہارا ہی نام سہی، لیکن میری بہت دل شکنی ہوگی، اگر روپے مل گئے تو میں گھروالوں پر گولا چھوڑ دوں گا اور لوگوں کو خوب چڑاؤں گا، بالکل طفلانہ خواہش ہے۔‘‘

میں مجبور ہوگیا۔ بکرم کے نام سے ٹکٹ لیا گیا۔

ایک ایک کرکے انتظار کے دن کٹنے لگے۔ صبح ہوتے ہی ہماری نگاہ کیلنڈر پر جاتی میرا مکان بکرم کے مکان سے ملا تھا۔ اسکول جانے سے قبل اور اسکول سے آنے کے بعد ہم دونوں ساتھ بیٹھے اپنے منصوبے باندھا کرتے اور سرگوشیوں میں کہ کوئی سن نہ لے۔

ایک دن شادی کا تذکرہ چھڑ گیا۔ بکرم نے فلسفیانہ انداز سے کہا، ’’بھئی شادی وادی کا خلجان نہیں چلانا چاہتا خواہ مخواہ کی کوفت اور پریشانی، بیوی کی ناز برداری میں ہی بہت سے روپے اڑ جائیں گے۔ ہم بقائے نسل کے لئے کوئی ٹھیکیدار ہیں؟‘‘

میں نے شادی کے دوسرے پہلوؤں پر غور کیا، ’’ہاں یہ تو درست ہے مگر جب تک شادی و غم میں کوئی رفیق نہ ہو، دولت کا لطف ہی کیا، تنہا خوری سے انسان کی طبیعت خود نفرت کرتی ہے، میں تو بھئی عیال داری سے اتنا بیزار نہیں، ہاں رفیق ہو اور وہ بیوی کے سوا دوسرا کون ہو سکتا ہے۔‘‘

بکرم کی پیشانی پر بل پڑ گئے بولا، ’’خیر اپنا اپنا نقطۂ نظر ہے آپ کو عیال داری مبارک، بندہ تو آزاد رہے گا، اپنے مزے سے جہاں چاہا اڑ گئے اور جب جی چاہا سو گئے۔ یہ نہیں کہ ہر وقت ایک پاسبان آپ کی ہر ایک حرکت پر آنکھیں لگائے بیٹھا رہے۔ ذرا سی دیر ہوئی اور فوراً جواب طلب، آپ کہیں چلے اور فوراً سوال ہوا، کہاں جاتے ہو؟ کیوں کسی کو مجھ سے یہ سوال کرنے کا حق ہو۔‘‘

’’میں نہ یہ سوال کسی سے کرنا چاہتا ہوں، اور نہ چاہتا ہوں مجھ سے کوئی سوال کرے۔ نہ بابا آپ کو شادی مبارک، بچے کو ذرا سا زکام ہو اور آپ اڑ ے چلے جارہے ہیں ہومیوپیتھک ڈاکٹر کے پاس، ذرا عمر کھسکی اور لونڈے منتیں ماننے لگے کہ کب آپ راہی عدم ہوں اور وہ گل چھڑے اڑائیں، نہ نہ اس وبال۔۔۔‘‘ بکرم کی بہن کنتی نے اتنے دھماکے سے دروازہ کھولا کہ ہم دونوں چونک پڑے کوئی تیرہ چودہ سال کی تھی۔ مگربڑی خوش مزاج اور انتہا درجہ کی شوخ۔

بکرم نے ڈانٹا، ’’تو بڑی شیطان ہے کتنی، میں تو ڈر گیا کس نے تجھے بلایا یہاں۔‘‘

’’تم لوگ ہر دم یہاں بیٹھے کیا باتیں کرتے ہو، جب دیکھو یہیں جمے ہو نہ کوئی کام نہ دھندا، کہیں گھومنے بھی نہیں جاتے ایسے اچھے اچھے تماشے آئے اور چلے گئے، تم چلے ہی نہیں، آخر کس کے ساتھ جاؤں۔ کیا کوئی جادو منتر جگا رہے ہو؟‘‘

بکرم ہنسا، ’’ہاں جادو جگا رہے ہیں۔ جس میں تجھے ایسا دولہا ملے جو گن کر روز پانچ ہنٹر جمائے۔‘‘

کنتی نے پیٹھ کی طرف سے اس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور بولی، ’’مجھے اپنا بیاہ نہیں کرنا ہے اماں سے پچاس ہزار روپے لے لوں گی اور مزے سے عیش کروں گی کیوں کسی مرد کی غلامی کروں؟ کھلائے تو دو روٹیاں اور حکومت ایسی جتائے گا جیسے اس کی زر خرید لونڈی ہوں، بندی باز آئی ایسی شادی سے، میں روز اماں کے ٹکٹ کے لئے ایشور سے پرارتھنا کرتی ہوں، اماں کہتی ہیں کنواری لڑکیوں کی دعا میں بڑی تاثیر ہوتی ہے۔ میرا تو دل کہتا ہے اماں کو ضرور روپے ملیں گے۔‘‘

مجھے اپنی ننھیال کا ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک بار دیہات میں بارش بالکل نہ ہوئی تھی بھادوں کا مہینہ آگیا اورپانی کی ایک بوند نہیں۔ تب گاؤں والوں نے چندہ کرکے گاؤں کی سب کنواری لڑکیوں کی دعوت کی تھی اور دوسرے دن موسلادھار بارش ہوئی تھی۔ ضرور کنواری لڑکیوں کی دعا میں بڑی تاثیر ہوتی ہے۔ میں نے بکرم کی طرف پرمعنی نظروں سے دیکھا۔ نظروں ہی نظروں میں ہم نے فیصلہ کرلیا ایسا شفیع پاکر کیوں چوکتے۔

بکرم بولا، ’’اچھا کنتی۔ تجھ سے ایک بات کہیں، کسی سے کہے گی تو نہیں اگر کہا تو حلال کردوں گا۔ میں اب کے تجھے خوب دل لگا کر پڑھاؤں گا اور پاس کرا دوں گا۔ ہم دونوں نے بھی لاٹری کا ٹکٹ لیا ہے، ہم لوگوں کے لئے بھی ایشور سے دعا کرو۔ اگر روپے ملے تو تجھے ہیرے جواہرات سے مڑھ دیں گے سچ، مگر خبردار کسی سے کہنا مت۔‘‘

مگر کنتی کا ہاضمہ مضبوط نہ تھا۔ یہاں تو وہ وعدہ کرگئی، مگر اندر جاتے ہی بھانڈا پھوڑ دیا۔ ایک ہی لمحہ میں سارے گھر میں خبر پھیل گئی۔ اب جسے دیکھئے ہم دونوں کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ پانچ روپے لے کر پانی میں ڈال دیے، گھر میں چار ٹکٹ تو تھے ہی پانچویں کی کیا ضرورت تھی۔ یہ ماسٹر اسے خراب کر رہا ہے، نہ کسی سے پوچھا نہ گچھا، لے کے روپے پھینک دیے۔ خود را نصیحت والی کہانی سامنے آئی۔ گھر کے بزرگ چاہے گھر میں آگ لگا دیں، کوئی کچھ نہ کہہ سکتا، بچارے چھوٹے ان کی مرضی کے خلاف آواز بھی نکالیں تو کہرام مچ جاتا ہے۔

بکرم کے والد ٹھاکر کہلاتے تھے، چچا چھوٹے ٹھاکر، دونوں ہی ملحد تھے، پکے ناستک، دیوتاؤں کے دشمن، پوجا پاٹ کا مذاق اڑانے والے۔ گنگا کو پانی کی دھارا اور تیرتھوں کو سیر کے مقامات سمجھنے والے۔ مگر آج کل دونوں ہی معتقد ہوگئے تھے۔ بڑے ٹھاکر صاحب علی الصبح ننگے پاؤں اشنان کرنے جاتے، اورادھر سے شہر کے دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہوئے کوئی گیارہ بجے گھر لوٹتے تھے۔ چھوٹے ٹھاکر گھر ہی میں بیٹھے ہوئے روز ایک لاکھ رام نام لکھ کر تب جل پان کرتے۔

دونوں صاحب شام ہوتے ہی ٹھاکر دوارے میں جا بیٹھتے اور بارہ بجے رات تک بھاگوت کی کتھا سنا کرتے تھے۔ بکرم کے بھائی صاحب کا نام تھا پرکاش، انہیں سادھوسنتوں سے عقیدت ہوگئی تھی، انہیں کی خدمت میں دوڑتے رہتے۔ انہیں یقین ہوگیا تھاکہ جہاں کسی مہاتما نے آشیرواد دیا اور ان کا نام آیا۔ رہیں بکرم کی اماں جی ان میں ایسا کوئی خاص تغیر تو نہ تھا۔ ہاں آج کل خیرات زیادہ کرتی تھیں اور برت بھی زیادہ رکھتی تھیں۔ درگا پاٹ کا بھی انتظام کیا تھا۔ لوگ ناحق کہتے تھے کہ مادہ پرستوں میں اعتقاد نہیں ہوتا۔ میں تو سمجھتا ہوں ہم میں جو اعتقاد اور پرستش اور دین داری ہے وہ ہماری مادہ پرستی کے طفیل، ہمارا دین اور مذہب ہماری دنیا کے بلی پر لٹکا ہوا ہے۔

ہوس انسان کی رائے اور دماغ میں اتنی روحانیت پیدا کرسکتی ہے یہ میرے لئے نیا تجربہ تھا اور محض روحانیت کا ملمع نہ تھا۔ وہی خلوص، وہی نشہ، وہی انہماک گویا طبیعت ہی بدل گئی ہو۔ رہے ہم دونوں، ساجھے دار تھے۔ ہمارے پاس روپے نہ تھے، نہ اتنا وقت تھا۔ مجھے نوکری بچانی تھی بکرم کو کالج جانا تھا۔ ہم دونوں ہاتھ مل رہے تھے۔ جوتشیوں کی تلاش میں رہتے تھے مگر ان کے لئے ہمارے پاس نیازمندی اور خدمت گزاری کے سوا اور کیا تھا۔

جوں جوں قتل کی رات قریب آجاتی جاتی تھی ہمارا سکون غائب ہوتاجاتا تھا۔ ہمیشہ اسی طرف دھیان لگا رہتا۔ میرے دل میں خواہ مخواہ یہ شبہ ہونے لگا کہ کہیں بکرم مجھے حصہ دینے سے انکار کر دے تو کیا کروں۔ صاف انکار کر جائے کہ تم نے ٹکٹ میں ساجھا ہی نہیں کیا، نہ کوئی دوسرا ثبوت، سارا دار و مدار بکرم کی نیت پر ہے۔ ایک دن ہم دونوں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہ یکایک بکرم نے کہا، ’’ہمارا ٹکٹ نکل آئے، مجھے دل میں یہ افسوس ضرور ہوگا کہ ناحق تم سے ساجھا کیا۔‘‘

میں نے چونک کر کہا، ’’اچھا مگر اسی طرح کیا مجھے افسوس نہیں ہوسکتا؟‘‘

’’لیکن ٹکٹ تو میرے نام کا ہے۔‘‘

’’اس سے کیا ہوتا ہے۔‘‘

’’اچھا مان لو، میں کہہ دوں، تم نے ٹکٹ میں ساجھا ہی نہیں کیا۔‘‘

’’میرے خون کی حرکت بند ہو گئی۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔‘‘

’’میں تمہیں اتنا بدنیت نہیں سمجھتا۔‘‘

’’مگر ہے بہت ممکن، پانچ لاکھ، سوچو۔‘‘

’’تو آؤ لکھا پڑھی کر لو، جھگڑا کیوں رہے۔‘‘

بکرم نے ہنس کر کہا، ’’تم بڑے شکی ہو یار تمہارا امتحان لے رہا تھا۔ بھلا ایسا کہیں ہوسکتا ہے۔ پانچ لاکھ نہیں پانچ کروڑ کا معاملہ ہو تب بھی ایشور چاہے گا تو نیت میں فتور نہ آنے دوں گا۔‘‘

مگر مجھے ان اعتماد انگیز باتوں سے تشفی نہ ہوئی، دل میں ایک تشویش آگ کی چنگاری کی طرح سلگنے لگی۔ کہیں سچ مچ انکار کر جائے تو کہیں کا نہ رہوں۔

میں نے کہا، ’’یہ تو میں جانتا ہوں کہ تمہاری نیت میں فتور نہیں آسکتا۔ لیکن تحریر سے پابند ہوجانے میں کیا حرج ہے؟‘‘

’’فضول ہے۔‘‘

’’فضول ہی سہی۔‘‘

’’تو پکے کاغذ پر لکھنا پڑے گا۔ دس لاکھ کی کورٹ فیس ہی دس ہزار ہو جائے گی کس خیال میں ہو آپ۔‘‘

میں نے تامل کرکے کہا، ’’مجھے سادے کاغذ ہی سے اطمینان ہوجائے گا۔‘‘

’’جس معاہدے کی کوئی قانونی اہمیت نہ ہو، اسے لکھ کر کیوں وقت ضائع کریں؟‘‘

’’قانونی اہمیت نہ ہو، اخلاقی اہمیت تو ہے۔‘‘

’’اچھا لکھ دوں گا، جلدی کیا ہے۔‘‘

مجھے دال میں کچھ کالا نظر آیا، بگڑ کر بولا، ’’تمہاری نیت تو ابھی سے بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔‘‘

’’تو کیا تم ثابت کرنا چاہتے ہو کہ ایسی حالت میں تمہاری نیت فاسد نہ ہو جاتی۔‘‘

’’میری نیت اتنی کمزور نہیں ہے۔‘‘

’’اجی رہنے بھی دو بڑے نیت والے دیکھے ہیں۔‘‘

’’مجھے اپنے اوپر اعتبار نہیں رہا۔ میں تم سے معاہدہ لکھوا کر چھوڑوں گا چاہے دوستی کا خاتمہ ہی کیوں نہ ہوجائے۔‘‘

بڑے نشست خانے میں جہاں دونوں ٹھاکر بیٹھا کرتے تھے، اسی طرح کا مناظرہ چھڑا ہوا تھا۔ جھڑپ کی آواز سن کر ہمارا دھیان ادھر لگا۔ دیکھا تو دونوں بھائیوں میں ہاتھا پائی ہورہی ہے۔ سچ مچ اپنی کرسیوں سے اٹھ کر پینترے بدل رہے تھے۔

چھوٹے نے کہا، ’’مشترکہ خاندان میں کسی کے نام سے روپیہ آئے، ان پر سب کا مساوی حق ہے۔‘‘

بڑے ٹھاکر نے بگڑ کر جواب دیا، ’’ہرگز نہیں، جا کر قانون دیکھو اگر میں کوئی جرم کروں تو مجھے سزا ہو گی۔ مشترکہ خاندان کو نہیں، یہ انفرادی معاملہ ہے۔‘‘

’’اس کا فیصلہ عدالت کرے گی۔‘‘

’’شوق سے عدالت جائیے، اگر میرے لڑکے کی بیوی یا خود میرے نام لاٹری نکلی تو آپ کو اس سے کوئی تعلق نہ ہوگا، جیسے آپ کے نام لاٹری نکلے تو مجھ سے یا میری لڑکی سے یا میری بیوی سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔‘‘

’’اگر میں جانتا۔ آپ یہ پہلو اختیار کریں گے تو اپنی بیوی بچوں کے نام سے ٹکٹ لے لیتا۔‘‘

’’تو یہ آپ کا تصور ہے۔‘‘

’’اسی لئے مجھے خیال تھاکہ آپ میرے حقیقی بھائی ہیں اور ایک جا معاملہ ہے۔‘‘

’’یہ جوا ہے، یہ آپ کو سمجھ لینا چاہئے۔‘‘

بکرم کی ماں نے دونوں بھائیوں کو شمشیر بکف دیکھا تو دوڑی ہوئی باہر آئیں اور دونوں کو سمجھانے لگیں۔

چھوٹے ٹھاکر صاحب بھرائی ہوئی آواز میں بولے، ’’آپ مجھے کیا سمجھاتی ہیں انہیں سمجھائیے جو بھائی کی گردن پر چھری پھیررہے ہیں۔ آپ کے پاس چار ٹکٹ ہیں میرے پاس صرف ایک، میرے مقابلے میں آپ لوگوں کو روپے ملنے کا چوگنا چانس ہے۔‘‘

بڑے ٹھاکر سے نہ رہا گیا بولے، ’’ہم نے بیس روپے نہیں دیے ٹھناٹھن۔‘‘

اماں نے انہیں ملامت کے انداز میں دیکھا، اور چھوٹے ٹھاکر صاحب کو ٹھنڈا کیا بولیں، ’’تم میرے روپے سے آدھے لے لینا۔ میں اپنے بیٹے۔۔۔‘‘

بڑے ٹھاکر نے زبان پکڑ لی، ’’کیوں واہیات قسم کھا رہی ہو، وہ کیوں آدھا لے لیں گے۔ میں ایک دھیلا بھی نہیں چھونے دوں گا۔ اگر ہم انسانیت سے کام لیں تو بھی انہیں پانچویں حصے سے زائد کسی طرح نہ ملے گا۔ آدھے کا دعوا کس بنا پر ہو سکتا ہے۔‘‘

چھوٹے ٹھاکر صاحب نے خونی نظروں سے دیکھا، ’’ساری دنیا کا قانون آپ ہی جانتے ہیں۔‘‘

’’جانتے ہیں۔ بیس سال تک وکالت نہیں کی ہے؟‘‘

’’یہ وکالت نکل جائے گی۔ جب سامنے کلکتہ کا بیرسٹر کھڑا کر دوں گا؟‘‘

’’بیرسٹر کی ایسی تیسی۔‘‘

’’اچھا زبان سنبھالئے میں نصف لوں گا۔ اسی طرح جیسے گھر کی جائیداد میں میرا نصف ہے۔‘‘

بڑے ٹھاکر صاحب کوئی توپ چھوڑنے والے ہی تھے کہ مسٹر پرکاش، سر اور ہاتھ میں پٹی باندھے خوش خوش لنگڑاتے ہوئے کھڑے ہوگئے۔ بڑے ٹھاکر صاحب نے گھبرا کر پوچھا، ’’یہ تمہیں کیا ہو گیا، ارے یہ چوٹ کیسی، یہ کسی سے جھگڑا ہوا۔ کہیں گر پڑے۔ ارے منگوا جاتو ڈاکٹر کو بُلا۔‘‘ اماں جی نے پرکاش کو ایک کرسی پر لٹا دیا اور وفور شک سے کچھ پوچھ نہ سکتیں تھیں۔

پرکاش نے کراہ کر حسرت ناک لہجے میں کہا، ’’کچھ نہیں، ایسی کچھ چوٹ نہیں لگی۔‘‘ بڑے ٹھاکر صاحب جو غم وغصہ سے کانپ رہے تھے۔ کہا،’’ کیسے کہتے ہو چوٹ نہیں لگی۔ سارا ہاتھ اور سر سوج گیا ہے۔ کہتے ہیں چوٹ نہیں لگی۔ کس سے جھگڑا ہوا، کیا معاملہ ہے۔ بتلاتے کیوں نہیں۔ میں جاکر تھانے میں رپٹ کرتا ہوں۔‘‘

’’آپ ناحق گھبراتے ہیں بہت معمولی چوٹ ہے دوچار روز میں اچھی ہوجائے گی۔‘‘ اس کے چہرے پر اب بھی ایک مسرت آمیز امید جھلک رہی تھی۔ ندامت غصہ یا انتقام کی خواہش کا نام تک نہ تھا۔

اماں نے آواز کو سنبھال کر پوچھا، ’’بھگوان کریں جلد اچھے ہو جاؤ۔ لیکن چوٹ لگی کیسے کسی تانگہ پر سے گر پڑے۔‘‘

پرکاش نے درد سے ناک سکوڑ کر مسکراتے ہوئے کہا، ‘‘کچھ نہیں، نہ کسی تانگہ سے، نہ کسی سے جھگڑا ہوا۔ ذرا جھگڑا بابا کے پاس چلا گیا تھا۔ یہ انہی کی دعا ہے۔ آپ تو جانتے ہیں وہ آدمیوں کی صورت سے بھاگتے ہیں اور پتھر مارنے دوڑتے ہیں، جو دوڑ کر بھاگا وہ نامراد رہ جاتا ہے جو پتھر کی چوٹیں کھا کر بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا اس کی مراد پوری ہوجاتی ہے۔ بس یہی سمجھ لیجئے چوٹ کھائی اور پاس ہوئے۔ بندہ وہاں قطب مینار کی طرح ڈٹا رہا۔ بس انہوں نے پتھر چلا ہی دیا۔ ادھر گھنٹہ بھر تک مجھ سے اٹھا ہی نہ گیا۔ آخر ہمت باندھ کر اٹھا اور ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا۔ بڑی شدت کا درد ہے مگر مراد پوری ہوگئی اب لاٹری میرے نام آئی رکھی ہے۔ مطلق شبہ نہیں سب سے پہلے جھگڑا بابا کی کٹی بناؤں گا۔ ان کی مار کھا کرآج تک کوئی نامراد نہیں لوٹا۔‘‘

بڑے ٹھاکر صاحب نے اطمینان کا سانس لیا۔ اماں جی کا اندیشہ بھی دور ہوگیا، سر پھٹا تو کیا ہوا۔ ہاتھ بھی ٹوٹا تو کیاغم ہے، لاٹری تو اپنی ہو گی۔

شام ہوگئی تھی، بڑے ٹھاکر صاحب مندر کی طرف چلے گئے، بھگوت سننے کا وقت آگیا تھا۔ چھوٹے ٹھاکر صاحب وہیں بیٹھے رہے ان کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ بولے، ’’جھگڑا بابا تو وہیں رہتے ہیں ندی کے کنارے نیچے میں۔‘‘

پرکاش نے بے اعتنائی سے کہا، ’’جی ہاں۔‘‘

’’کیا بہت زور سے مارتے ہیں؟‘‘

پرکاش نے ان کا عندیہ سمجھ لیا۔

’’آپ زور سے کہتے ہیں، ارے صاحب ایسا پتھر مارتے ہیں کہ بم کے گولے سا لگتا ہے۔ دیو ساتھ ہے اور شہ زور اتنے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ شیروں کو گھونسے میں مار ڈالتے ہیں۔ اف سر پھٹا جا رہا ہے۔ ان کا نشانہ ایسا بے خطا ہوتا ہے کہ آدمی بچ ہی نہیں سکتا ایک دو پتھر سے زیادہ کھانے کی کسی میں تاب ہی نہیں۔ جب تک گر نہ پڑیں، مگر راز یہی ہے کہ آپ جتنے زیادہ پتھر کھائیں گے اتناہی اپنے مقصد کے قریب پہنچیں گے۔ ایک چوٹ کھاکر جان بچانے کے لئے کوئی بہانہ کرکے گر پڑے تو اس کا پھل بھی اتنا ہی ملتا ہے۔ آدھا یا اس سے کم۔ میں نے تو ٹھان لیا تھا کہ چاہے مر ہی جاؤں لیکن جب تک نہ گر پڑوں پیچھا نہ چھوڑوں گا۔‘‘

پرکاش نے ایسا ہیبت ناک مرقع کھینچا کہ چھوٹے ٹھاکر صاحب کانپ گئے جھگڑا بابا کی کٹیا میں جانے کی ہمت نہ پڑی۔

آخر جولائی کی بیسویں تاریخ آئی، سویرے ہی ڈاک خانے کے سامنے کئی ہزار آدمیوں کا مجمع ہوگیا۔ تار کا انتظار ہونے لگا۔

پرکاش بابو پٹیاں باندھے غریبوں کو غلہ بانٹ رہے تھے۔ اور بار بار فون پرجاکر پوچھتے کیا خبر ہے۔ ہر شخص کے چہرے پر امید و بیم کا رنگ تھا۔ ٹیلی فون کی گھنٹی زور سے بجی سب کے سب دوڑے، رسیور بکرم کے ہاتھ لگا، ’’کون ہے؟‘‘

’’میں ہوں بکرم۔‘‘

’’کیا خوشخبری ہے۔‘‘

’’اس شہرکا صفایا ہے، شہر ہی کافی نہیں، سارے ہندوستان کا، امریکہ کے ایک آدمی کا نام آیا ہے۔‘‘

پرکاش بابو زمین پر گر پڑے۔ بڑے ٹھاکر صاحب پر جیسے فالج گر گیا ہو۔ بے حس و حرکت نقش دیوار کی طرح کھڑے رہ گئے۔ چھوٹے ٹھاکر صاحب سر پیٹ کررونے لگے۔

رہا میں، مجھے مایوسی کے ساتھ ایک حاسدانہ مسرت ہورہی تھی کہ مجھے بکرم کی خوشامد کرنے کی ذلت نہیں اٹھانی پڑی۔ اماں جان باہر نکل آئیں اور کہہ رہی تھیں سبھوں نے بے ایمانی کی، کون وہاں دیکھنے گیا تھا۔

اس روز رات کو کسی نے کھانا نہیں کھایا۔ بڑے ٹھاکر صاحب نے پجاری جی پر غصہ اتار دیا اور انہیں برخاست کر دیا اسی لئے تمہیں اتنے دنوں سے پال رکھا ہے حرام کا مال کھاتے ہو اور چین کرتے ہو۔

اتنے میں بکرم رونی صورت لئے آکر بیٹھ گیا۔ میں نے پوچھا، ’’اب معاملہ ختم ہوگیا، مگرسچ کہنا، تمہاری نیت فاسد تھی یا نہیں؟‘‘

بکرم بے غیرتی کے ساتھ مسکرا پڑا، ’’اب کیا کرو گے پوچھ کر، پردہ ڈھکا رہنے دو۔‘‘

(ممتاز ادیب اور فکشن نگار کرشن چندر کا مشہور افسانہ)

Comments

- Advertisement -