بدھ, جون 26, 2024
اشتہار

لوسی لیٹبی: 7 نومولود بچوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والی نرس کون ہے ؟

اشتہار

حیرت انگیز

لندن: برطانیہ کے اسپتال میں سات نوزائیدہ بچوں کو موت کے گھاٹ اترانے والی نرس کو  سیریل کلر قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی ایک نرس لوسی لیٹبی کو 7 نومولد بچوں کا قتل اور 6 بچوں کے قتل کرنے کی کوشش کے الزام میں مجرم قرار دیا گیا ہے، مانچسٹر کی عدالت میں بتایا گیا کہ لوسی نے جون 2015 سے جون 2016 کے درمیان 17 بچوں کو نشانہ بنایا۔

رپورٹ کے مطابق لوسی پر 22 الزامات تھے جن میں سات نومولود بچوں کے قتل کا الزام بھی شامل تھا، لوسی نے سب سے پہلے 2015 میں ایک بچے کو موت کے گھاٹ اتارا، بچے کی پیدائش قبل از وقت ہوئی جس کے بعد بچے کو انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل کیا گیا۔

- Advertisement -

عدالت میں جیوری کے مطابق اس بچے کی خون کی شریانوں میں جان بوجھ کر ہوا کا انجیکشن لگایا گیا تھا جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی۔

سفاک نرس نے 8 نوزائیدہ بچوں کی جان کیوں لی، ملزمہ گرفتار

رپورٹ کے مطابق اسپتال انتظامیہ نے لوسی لیٹبی کے خلاف کوئی تفتیش نہیں کی، لوسی پر سینئر ڈاکٹر کے الزامات کے باوجود اسے کام کرنے دیا گیا جس کے بعد اس نے مزید 5 بچوں کا قتل کیا۔

بی بی سی کی تحقیقات کے مطابق اسپتال انتظامیہ کے الزامات کے باوجود  نرس کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا، جب لوسی کو آئی سی یو سے منتقل کیا گیا تب بھی اسے وارڈ کے حساس دستاویزات تک رسائی حاصل تھی کیوںکہ وہ سینیئر مینیجر کے قریب تھیں۔

تاہم برطانیہ کی تاریخ میں بچوں کی بدترین سیریل کلر نرس لوسی لیٹبی پر 7 نومولود بچوں کو قتل کرنے کے علاوہ مزید 6 بچوں کو قتل کرنے کی کوشش کا جرم بھی ثابت ہوگیا ہے۔

بچوں کو زہریلے انجکشن اور زیادہ آکسیجن دے کر قتل کرنے والی نرس گرفتار!

بچوں کی بدترین سیریل کلر نرس لوسی لیٹبی نے اپنے بیان میں مذکورہ بچوں کو جان بوجھ کر مارنے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میں ان کی دیکھ بھال نہیں کر پا رہی تھی، نرس لوسی کے اس بیان کے بعد توقع ہے کہ اس کوعمر قید کی سزا مل سکتی ہے۔

نرس لوسی لیٹبی کون ہے؟

 لوسی لیٹبی چار جون 1990 کو پیدا ہوئیں اور ہیئر فورڈ میں پلی بڑھیں، ان کے والد جون اور والدہ سوزن مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کی گیلری میں موجود رہے۔

لوسی نے مقامی اسکول میں تعلیم حاصل کی، لوسی نے جیوری کو بتایا کہ ’میں ہمیشہ سے بچوں کے ساتھ کام کرنا چاہتی تھی۔‘

میں اپنے خاندان میں یونیورسٹی جانے والی پہلی فرد تھیں۔ میں نے چیسٹر یونیورسٹی میں تین سال نرسنگ کی تعلیم حاصل کی، پڑھائی کے دوران بھی میں نے کاؤنٹس آف چیسٹر اسپتال کے نومولود بچوں کے وارڈ میں کام کیا۔

ستمبر 2011 میں پڑھائی مکمل ہونے کے بعد میں نے جنوری 2012 میں اسی اسپتال میں نوکری حاصل کر لی، 2015 میں لوسی کو نومولود بچوں کے ساتھ کام کرنے کی اجازت مل گئی۔

لوسی نے عدالت کو بتایا کہ میرا زیادہ تر وقت بیمار بچوں کی دیکھ بھال میں گزرتا تھا، اس دوران میں نے 5 سے 6 نرسنگ طلبا کی تربیت کی اور 2015 سے 2016 کے درمیان سینکڑوں نومولود بچوں کا خیال رکھا۔

تاہم ستمبر 2016 میں مجھے رائل کالج آف نرسنگ کی جانب سے باقاعدہ طور پر ایک خط کے ذریعے مطلع کیا گیا کہ میں بچوں کی اموات کے معاملے پر زیرت فتیش ہوں۔

اسی دوران ان کو نومولود بچوں کی نگہداشت سے ہٹا دیا گیا تھا اور اسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے ان کو ایک اور کام سونپ دیا گیا تھا جس میں مریضوں سے ان کا براہ راست کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔

الزام

اسی دوران 6 سال بعد لوسی ایک شیشے کی اسکرین کے پیچھے عدالت میں استغاثہ کے الزامات سن رہی تھیں جن میں عدالت کو بتایا گیا کہ لوسی ایک ’موقع پرست‘ تھیں جنھوں نے اپنے ’قاتلانہ حملے چھپانے کے لیے‘ اپنے ’ساتھیوں کی نفسیات سے کھیل رچایا اس سے قبل ان پر کوئی الزام نہ تھا۔‘

ان کی دفاعی ٹیم نے عدالت میں موقف اپنایا کہ بچوں کی اموات ’اسپتال میں موجود یونٹ کی ناکامیوں کی وجہ سے ہوئی، اسپتال ایک ایسے نظام کا شکار ہوئی ہیں جو اپنی ناکامی کی ذمہ داری کسی اور پر ڈالنا چاہتا تھا۔‘

مقدمے کے دوران جیوری کو لوسی کی زندگی کے بارے میں بھی بتایا گیا اور ان کی نجی واٹس ایپ چیٹ اور سوشل میڈیا پیغامات پڑھ کر سنائے گئے۔

لوسی لیٹبی کی زندگی

لوسی نے عدالت کو بتایا کہ وہ ’باقاعدگی سے سالسا کلاس لیتی تھیں، دوستوں کے ساتھ باہر جاتی تھیں اور ان کے ساتھ چھٹیاں مناتی تھیں، جم جاتی تھیں۔‘

لوسی اسپتال کے اسٹاف کے لیے مختص ایش ہاؤس میں رہائش پذیر رہنے کے بعد 6 ماہ تک چیسٹر میں ہی ایک فلیٹ میں منتقل ہو گئی تھیں۔

لوسی نومبر 2020 سے حراست میں ہیں اور انھوں نے چار مختلف جیلوں میں وقت گزارا ہے۔

ان کا مقدمہ دنیا بھر میں مشہور ہوا ہے اور بہت سے لوگوں کے لیے بات ناقابل فہم ہے کہ نومولود بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی نرس کیسے اتنے بہیمانہ جرائم کر سکتی ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں