تازہ ترین

اسحاق ڈار ڈپٹی وزیراعظم مقرر

وزیرخارجہ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم مقرر کر دیا...

جسٹس بابر ستار کے خلاف بے بنیاد سوشل میڈیا مہم پر ہائیکورٹ کا اعلامیہ جاری

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کی امریکی...

وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب، صدر اسلامی ترقیاتی بینک کی ملاقات

وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوسرے...

وزیراعظم شہباز شریف آج ریاض میں مصروف دن گزاریں گے

وزیراعظم شہباز شریف جو کل سعودی عرب پہنچے ہیں...

شہرۂ آفاق ناول "مادام بواری” کے مصنّف کی کہانی

فرانسیسی ادیب فلابیر کو حقیقت نگاری کا بانی کہا جاتا ہے جسے اپنے شہرۂ آفاق ناول ’’مادام بواری‘‘ کی وجہ سے مقدمہ اور تنازع کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس ناول کا دنیا کی کئی زبانوں میں‌ ترجمہ ہوا جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔

1858ء میں ناول کی اشاعت پر مقدمہ میں فتح فلابیر کی ہوئی تھی۔ فلابیر اپنے ایک خط میں‌ لکھتا ہے: ’’ میں جانتا ہوں کہ میں ان دنوں جو کچھ لکھ رہا ہوں اسے کبھی بھی مقبولیت حاصل نہ ہو گی، لیکن میرے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ لکھنے والا خود اپنے لیے لکھے، حسن آفرینی کا یہی ایک طریقہ ہے۔‘‘ فلابیر وہ فرانسیسی ناول نگار تھا جس نے ادیب کی تخلیقی آزادی کو غیر معمولی اہمیت دی۔ حقیقت نگاری کی ابتدا تو فرانس ہی سے ہوئی تھی مگر اس کا باضابطہ آغاز کس مصنّف کیا، محققین کسی ایک نام پر متفق نہیں۔ تاہم مادام بواری کی اشاعت کے بعد فلابیر کو ادب میں بڑا نام و مقام ملا۔

اس ادبی شاہ کار کا مرکزی خیال کچھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ رومان اس ناول کی ہیروئن اور اس کے شوہر کو زوال پذیر کر دیتا ہے۔ یہ عورت کے معاشقے کی داستان ہے جو سماج کی نظروں میں مذہب، روایات اور عوامی اخلاقی قدروں کی پامالی کے مترادف تھا اور اسی لیے مصنّف کے ساتھ ناشر اور مطابع کے خلاف عدالت میں کیس داخل کردیا گیا، لیکن یہ ثابت نہ کیا جاسکا کہ ناول کا مواد کس طرح سماجی قدروں کی پامالی کا باعث، زنا کاری کی ترویج اور شادی کے بندھن کے تقدس کو پامال کرنے والا تھا؟ اس زمانے میں ناول میں جنسی اعمال و افعال کی تفصیل جس قدر کھل کر کبھی بیان کی گئی تھی، پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ایسی بے باکی پر پابندی عائد کی جائے جو بدکاری اور دھوکے کو فروغ دینے کا سبب بن سکتی ہے۔ مقدمہ میں‌ کہا گیا کہ مصنّف نے اس بدکاری کو یوں‌ بیان کیا ہے جیسے یہ کوئی مقدس کام ہو اور اس پر ناول کے کردار کو پیشمانی ہی نہیں ہے۔ اس وقت معاشرے کو ایسا رویہ قبول نہیں تھا کہ شادی کے مقدس بندھن کو داغ دار کرتے ہوئے عورت اپنے محبوب کے لیے والہانہ جذبات اور لگاوٹ کا اظہار کرتے، لہٰذا ناول کے خلاف شور و غوغا لازمی تھا۔ لیکن گستاف فلابیر اور ناول کے ناشر کو تمام الزامات سے بری کردیا گیا۔ اس مقدمے میں آزادئ اظہار رائے کی فتح ہوئی تھی اور ادیب یہ سمجھنے لگے کہ وہ قاری کو علم اور شعور دینے کے لیے حقیقت نگاری کو اپنا سکتے ہیں۔ یہ بات شاید دل چسپی سے خالی نہ ہو کہ اس ناول پر انگریزی میں تو پانچ مرتبہ فلم بنائی گئی لیکن ہندی سنیما میں بھی 1993 میں فلم "مایا میم صاب” بنائی تھی۔

آج گستاؤ فلابیر کا یومِ‌ وفات ہے جس کی تحریروں کو رومانویت پسندی اور حقیقت نگاری کا امتزاج کہا جاتا ہے۔ اس کا باپ پیرس کے قریب ایک گاؤں کے اسپتال میں ڈاکٹر تھا۔ فلابیر 1821ء میں پیدا ہوا۔ وہ زرخیز ذہن کا مالک تھا اور بیک وقت مختلف مکتب ہائے فکر کا پرچارک تھا۔ اس کا تعلق خوش حال گھرانے سے تھا۔ اس کی ماں کا خاندان بھی اعلٰی تعلیم یافتہ تھا۔ فلابیر کی ابتدائی تعلیم علم الادویہ اور سائنس کے میدان میں‌ ہوئی، مگر 1841 میں وہ اپنے والد کی خواہش پر قانون کی تعلیم کے حصول کے لیے پیرس چلا گیا۔ اسی زمانے میں وہ ایک پراسرار بیماری کا شکار ہوا اور اسے مرگی کا مرض تشخیص ہوا۔ 1946 میں‌ فلابیر کے والد کی وفات کے بعد اس کی بہن بھی وفات پاگئی۔ فلابیر اور اس کی ماں نے اپنے گھر میں‌ یتیم بچوں کی پرورش کی اور ان کے درمیان اپنی زندگی گزاری۔

فلابیر سیرو سیاحت کا دلدادہ تھا اور اس نے کئی ملکوں کا سفر کیا جس نے اس علم اور مشاہدے میں‌ اضافہ کیا۔ وہ ادب کی طرف متوجہ ہوا اور یہاں بھی کمرشل فکشن کے بجائے معیاری ادب تخلیق کیا۔ اس نے اپنے اسلوب اور انداز کو پُراثر بنانے پر خاص توجہ دی اور اس میں‌ کام یاب رہا۔

فلابیر نے ایک لغت بھی مرتب کی تھی جو اس کی وفات کے بعد شایع ہوئی۔ وہ اپنے ایک ناول پر آدھا کام کر چکا تھا کہ 1880 میں آج ہی کے دن انتقال کرگیا اور یوں وہ تصنیف مکمل نہ ہوسکی۔ اس وقت تک فلابیر پانچ ناول لکھ چکا تھا جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔ مادام بواری کو ایک معیاری تخلیق قرار دیا جاتا ہے جس کی ہیروئن ایما بواری غریب ہونے کے باوجود اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی جرأت کرتی ہے۔

Comments

- Advertisement -