واشنگٹن: امریکی دفتر خارجہ کے سابق ذمہ دار اینڈریو ملر نے دعویٰ کیا ہے کہ محمود خلیل کو اس لیے غیر قانونی حراست میں نہیں لیا گیا ہے کہ یہودیوں کو تحفظ کا احساس فراہم کیا جا سکے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر جمعرات کو اپنی پوسٹ میں اینڈریو ملر نے کہا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یہودیوں کی کوئی پروا نہیں ہے، محمود خلیل کی غیر قانونی حراست یہودیوں کے تحفظ کے لیے ہرگز نہیں، بلکہ یہ حراست اس لیے ہے تاکہ آئندہ دنوں میں آزادئ اظہار پر سخت حملے کیے جا سکیں۔
انھوں نے خبردار کیا کہ امریکا میں اظہار رائے پر پابندی کا دور آنے والا ہے، ملر نے کہا بدقسمتی سے ہم اس وقت ایسے راستے پر ہیں جو اظہار رائے پر پابندی کی طرف جاتا ہے، ایسا حملہ ہمیشہ کمزور طبقات کے اظہار رائے کو روکنے سے شروع ہوتا ہے اور پھر سب کو لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف کولمبیا یونیورسٹی میں ہونے والے مظاہروں میں محمود خلیل کی شخصیت سامنے آئی تھی، تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے جب انھیں ملک بدری کے لیے گرفتار کیا تو اب وہ عالمی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ محمود بدھ کو عدالتی سماعت کے بعد لوزیانا میں نظر بند کیے گئے ہیں۔ اس کیس نے کالج کیمپس میں آزادانہ تقریر اور اس قانونی عمل کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں جو امریکی مستقل رہائشی کو ملک بدر کرنے کی اجازت دے گا۔
محمود خلیل کی گرفتاری پر مظاہرین کا ٹرمپ ٹاور کی لابی پر قبضہ، 100 کے قریب مظاہرین گرفتار
دوسری طرف حقوق اور مسلم تنظیموں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ان ریمارکس کی شدید مذمت کی ہے جس میں انھوں نے سینیٹر چک شومر کے بارے میں کہا تھا کہ وہ اب یہودی نہیں رہے بلکہ فلسطینی بن گیا ہے۔ کئی گروپوں نے چک شومر پر اس ’حملے‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ ان کو فلسطینی کہنا فلسطینیوں کی توہین ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والا محمود خلیل زیر حراست ہیں، اور ان کی بیمار بیوی کولمبیا رہائشی کالونی میں مقیم ہیں، جب کہ ٹرمپ انتظامیہ کی کوشش ہے کہ وہ خلیل کو امریکا سے ڈی پورٹ کر دے، حالاں کہ محمود کے پاس امریکا میں مستقل رہنے کا قانونی جواز موجود ہے۔
محمود کو امریکا سے ڈی پورٹ کرنے پر اسرائیل نے کافی اطمینان کا اظہار کیا ہے، تاہم دںیا بھر کے آزادی پسند اور انسانی حقوق پر یقین رکھنے والے رہنما اس امریکی اقدام کی مذمت کر رہے ہیں۔