بدھ, اپریل 30, 2025
اشتہار

محمود غزنوی: ایک بُت شکن کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

غزنی شہر سلطان محمود کی جائے پیدائش ہے جو موجودہ افغانستان کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے۔ اپنے آبائی شہر کی نسبت سے وہ محمود غزنوی مشہور ہوئے جنھیں برصغیر کی تاریخ میں بُت شکن کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

ہندوستان میں سلطان محمود غزنوی کا نام سومناتھ کے مندر پر لشکر کشی اور سترہ حملوں کی وجہ سے مشہور بھی ہے اور بھارت میں متنازع بھی ہندوؤں کے نزدیک سلطالن کی فوج نے مندر کو برباد کرنے کے بعد لوٹ مار کی اور بڑا خزانہ اپنے ساتھ لے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے مندر 1026ء میں دروازے نکال لیے تھے اور ان کو غزنی لے آئے تھے۔ نریندر مودی کے دور میں بھارت میں انتہا پسندی اور مذہب کی بنیاد پر نفرت اور تشدد عام ہوگیا ہے اور جہاں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، وہیں ہزاروں سال پرانی تاریخ کو مسخ کرنے اور مسلمانوں حکم رانوں کی کردار کشی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ متعصب ہندو مصنفین سلطان محمود غزنوی کو لٹیرا اور غارت گر لکھتے ہیں اور حکومت ہندوستان کے عوام میں غلط فہمیاں پیدا کر کے تاریخ کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل لیے لیے بدلنا چاہتی ہے۔

محمود غزنوی کو تاریخ کا پہلا حکم راں کہا جاتا ہے جنھوں نے اپنے لیے سلطان کا لفظ استعمال کیا۔ مؤرخین نے انھیں سلطنتِ‌ غزنویہ کا پہلا مطلق العنان اور آزاد حکم راں بھی لکھا ہے۔

محمود کا دورِ سلطانی 999ء سے شروع ہوتا ہے جو 1030ء میں ان کی وفات پر تمام ہوا۔ محمود غزنوی ایک بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد 30 اپریل کو انتقال کرگئے تھے۔

برصغیر میں مسلمانوں کی فتوحات کے ابتدائی دور کی بات ہو تو سلطان محمود غزنوی کا نام ضرور لیا جاتا ہے۔ اس میں سومناتھ میں ہندوؤں کے مقدس اور عظیم معبد پر حملہ ایک بڑی کارروائی تھی۔ دوسری طرف محمود غزنوی مثالی مسلمان حکم راں اور فاتح کے طور پر نظر آتے ہیں جن کے دربار میں علم و فضل کا بڑا چرچا تھا اور وہ قابل اور باصلاحیت شخصیات پر عنایات کرتے رہے۔ اسی سلطان کو اپنے ایک غلام ایاز کی وجہ سے بھی شہرت ملی۔ محمود و ایاز کے کئی واقعات ہم کو بصورتِ حکایت پڑھنے کو ملتے ہیں۔ تاہم تاریخ کی نہایت معتبر اور مستند کتب کے علاوہ ان سے منسوب اکثر مشہور قصّوں پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ البیرونی جیسی علمی شخصیت بھی سلطان کے دربار سے وابستہ رہی اور اسے سلطان کی علم دوستی سے جوڑا جاتا ہے۔

سلطان محمود غزنوی اپنے باپ سبکتگین کی وفات کے بعد تخت نشین ہوئے۔ اقتدار میں آکر اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور اس کے استحکام کے لیے کئی فوجی مہمّات انجام دیں اور زیادہ تر معرکوں میں کام یابی نے ان کے قدم چومے۔ سلطان نے غیرمسلم ریاستوں کے ساتھ ان علاقوں پر بھی لشکر کشی کی جہاں حاکم مسلمان تھے۔ یہ ان کے سلطنت کی توسیع کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ سلطان نے غزنی کے ایک طرف ‘کاشغر کی ایل خانی حکومت کو، دوسری طرف خود اپنے آقا سانیون کی سلطنت، تیسری طرف ویلمیوں اور طبرستان کی حکومت آل زیاد کو مشرقی سمت میں غوریوں کی سرزمین کو جن میں سے کچھ مسلمان ہو چکے تھے، پھر اسی مشرقی سمت میں ملتان اور سندھ کی حکومتوں کو، لاہور اور ہندوستان کے بعض دوسرے راجاﺅں کی حکومت کو ختم کر کے غزنی میں اپنے اقتدار کو عظمت اور دوام بخشا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سلطنتِ غزنوی شمال مغربی ایران سے لے کر برصغیر میں پنجاب تک، ماوراء النہر میں خوارزم اور مکران تک پھیلی ہوئی تھی۔ محمود کی آخری مہم 1027ء میں سندھ کے کنارے جاٹ قبائل کے خلاف تھی اور اس کے بعد ان کی فوج نے ہندوستان کا رخ نہیں کیا۔ بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ آخری مرتبہ سلطان نے ایرانی علاقے رے میں فتح حاصل کی تھی۔

محمود کی نجی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں تاہم ان کا نام اکثر ان کے القابات کے ساتھ یمین الدّولہ ابو القاسم محمود ابن سبکتگین المعروف محمود غزنوی لکھا جاتا ہے۔ محمود غزنوی کا سنہ پیدائش 971ء ہے۔ انھیں خدا نے دو بیٹوں سے نوازا تھا جن میں ایک کا نام محمد اور دوسرے کا نام مسعود تھا۔ سلطان محمود غزنوی کا مقبرہ افغانستان کے صوبے غزنی میں ہے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں