تازہ ترین

پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ، براہ راست دیکھیں

چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آج چین...

دیامر: مسافر بس کھائی میں گرنے سے 20 مسافر جاں بحق، متعدد زخمی

دیامر: یشوکل داس میں مسافر بس موڑ کاٹتے ہوئے...

وزیراعظم نے گندم درآمد اسکینڈل پر سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی کو ہٹا دیا

گندم درآمد اسکینڈل پر وزیراعظم شہبازشریف نے ایکشن لیتے...

پی ٹی آئی نے الیکشن میں مبینہ بے قاعدگیوں پر وائٹ پیپر جاری کر دیا

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے...

نمک دان والے مجید لاہوری کا تذکرہ

مجید لاہوری کا نام طنز و مزاح نگاری اور معروف ادبی رسالے نمک دان کے مدیر کی حیثیت سے اردو ادب میں‌ ہمیشہ زندہ رہے گا، لیکن نئی نسل کے باذوق قارئین کی اکثریت ان سے کم ہی واقف ہے۔ آج مجید لاہوری کی برسی منائی جارہی ہے۔

مجید لاہوری پاکستان کے نام وَر مزاح نگار اور مقبول کالم نویس تھے جنھوں نے نثر اور نظم دونوں اصنافِ ادب میں اپنی ظرافت اور حسِ مزاح پر داد پائی۔ مجید لاہوری کا رنگ جداگانہ ہے اور وہ اپنے ہم عصروں میں اپنے موضوعات اور اسلوب کی وجہ سے نمایاں ہوئے۔ نمک دان پندرہ روزہ ادبی رسالہ تھا جو ملک بھر میں مقبول تھا جب کہ ان کے کالم روزنامہ جنگ میں شایع ہوتے تھے اور علمی و ادبی حلقوں‌ کے علاوہ عام لوگوں‌ میں پسند کیے جاتے تھے۔ مجید لاہوری کی تحریروں کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ عوام کی بات کرتے اور بالخصوص اپنے کالموں میں‌ مسائل پر ظریفانہ انداز میں اربابِ اختیار کی توجہ مبذول کرواتے۔

26 جون 1957 کو مجید لاہوری کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس وقت پاکستان میں ایشین انفلوئنزا نامی وبا پھیلی تھی اور مجید لاہوری بھی اس کا شکار ہوگئے تھے۔ ان کا اصل نام عبدالمجید چوہان تھا۔ وہ 1913 میں پنجاب کے شہر گجرات میں پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے مجید لاہوری نے 1938 میں روزنامہ انقلاب، لاہور سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا اور اس کے بعد کئی اخبارات میں ذمہ داریاں نبھائیں۔ وہ محکمہ پبلسٹی سے بھی وابستہ رہے۔ 1947 میں کراچی آگئے اور انصاف، انجام اور خورشید میں خدمات انجام دینے کے بعد قومی سطح کے کثیرالاشاعت روزنامے سے وابستہ ہوگئے اور "حرف و حکایت” کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ تادمِ مرگ جاری رہا۔ ان کا آخری کالم بھی ان کی وفات سے ایک روز قبل شایع ہوا تھا۔

وہ لحیم شحیم، اور خوب ڈیل ڈول کے انسان تھے۔ دیکھنے والوں کو گمان گزرتا کہ وہ پہلوان رہے ہیں۔ شورش کاشمیری نے ایک مرتبہ مجید کا حلیہ اس طرح بیان کیا، ’بال کبھی مختلفُ البحر مصرعے ہوتے، کبھی اشعارِ غزل کی طرح مربوط۔ آنکھیں شرابی تھیں اور گلابی بھی۔ لیکن انہیں خوبصورت نہیں کہا جاسکتا تھا۔ چہرہ کتابی تھا۔ ناک ستواں۔ ماتھا کُھلا لیکن اتنا کشادہ بھی نہیں کہ ذہانت کا غماز ہو۔ مسکراتے بہت تھے، معلوم ہوتا لالہ زار کِھلا ہوا ہے یا پھر رم جھم بارش ہورہی ہے۔ اچکن پہن کر نکلتے تو معلوم ہوتا کہ گرد پوش چڑھا ہوا ہے۔ ورنہ سیدھے سادے اور موٹے جھوٹے کپڑوں میں اکبر منڈی لاہور کے بیوپاری معلوم ہوتے تھے۔ عمر بھر اپنی ہی ذات میں مگن رہے۔ کسی انجمن ستائش باہمی سے رابطہ پیدا کیا نہ ایسی کسی انجمن کے رکن رہے۔ وہ ان جھمیلوں سے بے نیاز تھے۔ ان کا اپنا وجود ایک انجمن تھا۔‘

مجیدؔ لاہوری نے طنز و مزاح کے لیے نثر اور نظم دونوں اصناف کا سہارا لیا۔ ان کا ذہن اور قلم معاشرے کے سنجیدہ اور سنگین مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے طبقاتی فرق، ناہم واریوں، سیاست اور سماج کی کم زوریوں کو سامنے لاتا رہا۔ ان کی تخلیقات میں غربا کے لیے رمضانی، مذہبی سیاسی لیڈروں کے لیے گل شیر خاں، چور بازار دولت مندوں کے لیے ٹیوب جی ٹائر جی اور کمیونسٹوں کے لیے لال خاں کی علامتیں پڑھی جاسکتی ہیں جو ان کے قارئین میں بے حد مقبول ہوئیں۔

تحریف کے وہ ماہر تھے۔ اور اس کے ذریعے نہایت شگفتہ اور لطیف پیرائے میں‌ اپنا مافی الضمیر قارئین تک پہنچا دیتے تھے۔ مجید لاہوری نے نہ صرف اپنی تحریروں سے نمک دان کو سجایا بلکہ ملک بھر سے ادیبوں اور شاعروں کی معیاری تحریروں کا انتخاب کر کے قارئین تک پہنچاتے رہے۔

ان دنوں ملک میں گویا مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے اور مزدور پیشہ یا غریب تو روزی روٹی کو ترس ہی رہا ہے، مگر ایک برس کے دوران متوسط طبقہ اور تنخواہ دار افراد بھی اس گرانی کے سبب نڈھال ہوچکے ہیں۔ اس پس منظر میں مجید لاہوری کی یہ نمکین غزل ملاحظہ کیجیے۔

چیختے ہیں مفلس و نادار آٹا چاہیے
لکھ رہے ہیں ملک کے اخبار آٹا چاہیے

از کلفٹن تا بہ مٹروپول حاجت ہو نہ ہو
کھارا در سے تا بہ گولی مار آٹا چاہیے

مرغیاں کھا کر گزارہ آپ کا ہو جائے گا
ہم غریبوں کو تو اے سرکار، آٹا چاہیے

اور یہ شعر دیکھیے۔

فاقہ کش پر نزع کا عالم ہے طاری اے مجید
کہہ رہے ہیں رو کے سب غم خوار آٹا چاہیے

آج اس ملک میں رہائشی مقصد کے لیے زمین اور اس پر گھر تعمیر کروانا تنخواہ دار طبقہ کے لیے ممکن نہیں‌ رہا۔ لوگوں کی اکثریت ذاتی گھر خریدنے کا تصور بھی نہیں‌ کرسکتی اور کرائے کے گھروں میں ان کا قیام ہے۔ مجید لاہوری کا یہ شعر ایسے ہی لوگوں کی بے بسی کو اجاگر کرتا ہے۔

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا

Comments

- Advertisement -