جمعہ, جون 6, 2025
اشتہار

مجنوں کا تذکرہ جنھوں نے اردو ادب میں زندگی کی ترجمانی کی

اشتہار

حیرت انگیز

اردو ادب کے ‘مجنوں’ کا یہ تذکرہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ آج بھی ان کی کتابیں شعر و ادب کے قارئین کے ذوق کی تسکین کرتی ہیں، بالخصوص طلبا کو ترقی پسند ادب، ایک عہد کے ادبی مسائل اور تنقیدی مضامین ان کی کتابوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اور آج مجنوں گورکھپوری کا یومِ وفات بھی ہے۔ انھیں اردو کے ممتاز نقاد، شاعر، مترجم اور افسانہ نگار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

مجنوں نے اپنے دور میں ترقی پسند ادب کو تنقیدی سطح پر نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اسی لیے ادب میں ان کی تنقیدی شناخت نمایاں بھی ہے۔ مجنوں گورکھپوری تسلسل کے ساتھ اپنے عہد کے ادبی و تنقیدی مسائل پر لکھا اور ایک گراں قدر سرمایہ یادگار چھوڑا۔

مجنوں‌ گورکھپوری 4 جون 1988ء کو انتقال کرگئے تھے۔ انھیں کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ مجنوں کا اصل نام احمد صدیق تھا۔ ان کے والد محمد فاروق دیوانہ بھی ادیب اور مشہور شاعر تھے۔ مجنوں مشرقی یوپی کے ضلع بستی تحصیل خلیل آباد میں واقع پلدہ المعروف ملکی جوت میں 10 مئی 1904 کو پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان اعلٰی تعلیم یافتہ اور زمیں دار تھا۔ احمد صدیق کا داخلہ سینٹ اینڈریوز اسکول میں کرایا گیا۔ 1921ء میں میٹرک کے بعد مجنوں نے 1927ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے انگریزی، اور ایک سال بعد کلکتہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ 1936ء میں درس و تدریس سے وابستہ ہوئے۔ 14 اکتوبر 1926ء میں مجنوں گورکھپوری کی شادی ہوگئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد دس سال تک وہ اپنے کنبے کے ساتھ بھارت میں مقیم رہے، لیکن مئی 1968ء میں ہجرت کرکے پاکستان کے شہر کراچی میں مقیم ہوگئے۔ یہاں مجنوں کراچی یونیورسٹی میں بہ حیثیت اعزازی پروفیسر تعینات ہوئے۔

مجنوں گورکھپوری کی انفرادیت ادب کو زندگی سے ہم آہنگ کرنا اور زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے سماجی شعور و آگہی اجاگر کرنا رہی اور اس حوالے سے انھوں نے نہایت قابلِ قدر مضامین لکھے۔ ان کی تنقیدی کتاب ’’ادب اور زندگی‘‘ نے بلاشبہ اردو تنقید میں فکر کا ایک نیا در کھولا۔ 1936ء میں جب ترقی پسند تحریک کی اردو ادب میں داغ بیل پڑی تو مجنوں صاحب کا اس میں بھی بڑا حصہ تھا۔ علی سردار جعفری اپنی کتاب ’’ترقی پسند ادب‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’تحریک کے ابتدائی زمانے میں مجنوں گورکھپوری نے اپنے تنقیدی مضامین سے تحریک کے اغراض و مقاصد کو پھیلانے میں بڑا کام کیا اور نئے اصولِ تنقید بنانے میں بڑی مدد کی۔ انھوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ادب زندگی کا ترجمان ہوتا ہے اور نقاد بھی زندگی کے ساتھ سائے کی طرح وابستہ ہے۔ اس لیے زندگی کی تبدیلی کے ساتھ ادب بھی بدلتا ہے۔‘‘ ان کی تنقیدی کتب میں نقوش و افکار، نکاتِ مجنوں، تنقیدی حاشیے، تاریخِ جمالیات، ادب اور زندگی، شعر و غزل سرِفہرست ہیں۔ مجنوں نے افسانے بھی لکھے۔ ان کی نگارشات خواب و خیال، مجنوں کے افسانے، سرنوشت کے نام سے کتابی شکل میں‌ شایع ہوچکی ہیں۔

مجنوں‌ گورکھپوری نے انگریزی ادب سے اردو تراجم بھی کیے اور جن غیرملکی ادیبوں کی تخلیقات کو اردو کا جامہ پہنایا ان میں شیکسپیئر، ٹالسٹائی، بائرن، برنارڈ شا اور جان ملٹن شامل ہیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں