تازہ ترین

وزیراعظم شہباز شریف آج ریاض میں مصروف دن گزاریں گے

وزیراعظم شہباز شریف جو کل سعودی عرب پہنچے ہیں...

سیشن جج وزیرستان کو اغوا کر لیا گیا

ڈی آئی خان: سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت...

سولر بجلی پر فکسڈ ٹیکس کی خبریں، پاور ڈویژن کا بڑا بیان سامنے آ گیا

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے سولر بجلی پر فکسڈ...

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

جب دو جواں سال بیٹیوں‌ کی موت کے بعد مارک ٹوین موت کے آگے سپر انداختہ ہوئے!

مارک ٹوین امریکا ایک ادیب، بے باک طنز نگار اور مدرّس تھے جن کی حاضر جوابی بھی مشہور ہے۔ انھوں نے بچّوں کی کہانیاں اور ناول بھی لکھے جنھیں بہت پذیرائی ملی۔ مارک ٹوین 21 اپریل 1910ء کو چل بسے تھے۔ آج مداح اور ان کے طنزیہ مضامین کے شیدائی مارک ٹوین کی یاد منا رہے ہیں۔

وہ 1835ء میں امریکی ریاست فلوریڈا میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام سیموئل لینگ ہارن کلیمنز تھا اور جہانِ ادب میں انھیں مارک ٹوین کے نام سے شہرت ملی۔ اپنے طنزیہ مضامین کے علاوہ مارک ٹوین نے اپنے ناولوں ’’دی ایڈوینچرز آف ہکل بیری فن‘ اور ’دی ایڈوینچرز آف ٹام سایر‘ کی بدولت بہت نام کمایا۔ ان کی یہ کہانیاں دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئیں جن میں اردو بھی شامل ہے۔ انہی تراجم کی بدولت مارک ٹوین کو برصغیر میں پہچانا گیا اور وہ یہاں بھی قارئین میں مقبول ہوئے۔

گیارہ سال کی عمر میں مارک ٹوین اپنے والد کی شفقت سے محروم ہوگئے تھے۔ اس کنبے کو مالی مسائل کا سامنا تھا جس کی وجہ سے مجبوراً مارک ٹوین کو اسکول چھوڑنا پڑا اور وہ ایک اخبار کے دفتر میں نوکر ہوگئے۔ وہیں کام سیکھنے کے دوران اخبار بینی کتب کے مطالعہ کا موقع ملا جس کے سبب مارک ٹوین کو مختلف علوم میں‌ دل چسپی پیدا ہوئی اور ادب کا شوق پروان چڑھا۔ اپنے شوق کی تکمیل کے ساتھ جب انھوں نے خود لکھنے کے لیے قلم تھاما تو کسے معلوم تھا کہ وہ امریکا بھر میں‌ مشہور ہوجائیں گے۔ انھوں نے اپنی طبیعت کی شوخی اور ظرافت کو تحریروں میں‌ یوں‌ سمویا کہ مقبول ترین مزاح نگاروں میں شمار ہوئے۔ مارک ٹوین کے کئی اقوال بھی مشہور ہیں جنھیں تحریر سے تقریر تک خوبی سے اظہارِ خیال کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

مارک ٹوین نہ صرف عوام میں مقبول تھے بلکہ امریکی سیاست دان، بڑے بڑے سرمایہ دار اور فن کار بھی ان سے متأثر تھے اور مارک ٹوین کے احباب میں‌ شامل تھے۔ اپنے دور کے ممتاز ناقدین اور مارک ٹوین کے ہم عصروں نے بھی ان کے تخلیقی جوہر کا اعتراف کیا اور مارک ٹوین کو ان کے منفرد طرزِ فکر اور طنز نگاری پر سراہا۔

مارک ٹوین کو ایک بے باک مزاح نگار کہا جاتا ہے اور جس طرح اردو ادب میں غالب کی ظرافت اور ان کی شوخ مزاجی مشہور ہے، اسی طرح مارک ٹوین سے بھی کئی واقعات منسوب ہیں جنھیں پڑھ کر ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ یہاں ہم سلام بن رزاق کے ترجمہ کردہ اس مضمون سے چند لطائف نقل کررہے ہیں جو نئی دہلی سے شایع ہونے والے معروف رسالے کھلونا میں‌ شایع ہوا تھا۔ ملاحظہ کیجیے:

‘مارک ٹوین امریکہ کا زبردست مزاح نگار ہو گزرا ہے۔ غالب کی طرح بات میں بات پیدا کرنے میں اسے کمال حاصل تھا۔ اس کی ہر بات میں عموماً مزاح کا پہلو ہوتا۔’

اس کے چند لطیفے سنو:
مارک ٹوین اور اس کے کچھ دوست بیٹھے شیکسپیئر کے ڈراموں پر بحث کر رہے تھے۔ مارک ٹوین کے ایک دوست نے کہا، ’’بھئی ہم نے تو سنا ہے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے دراصل کسی اور کے تھے، شیکسپیئر کے نام سے یوں ہی مشہور ہو گئے ہیں۔ کچھ دوستوں نے اس سے اختلاف کیا۔ بحث طول پکڑتی گئی۔

مارک ٹوین نے بحث ختم کرنے کے ارادے سے کہا، دوستو بحث چھوڑو، میں جب جنت میں جاؤں گا تب خود سیکسپیئر سے پوچھ لوں گا کہ اس کے ڈراموں کا اصل مصنف کون تھا؟‘‘

ایک دوست نے ہنستے ہوئے کہا ’’مارک! کیا یہ ضروری ہے کہ شیکسپیئر جنت ہی میں ہو، یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ دوزخ میں پڑا ہو۔‘‘مارک نے اطمینان سے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’اس صورت میں تم وہاں جا کر پوچھ لینا۔‘‘

مارک ٹوین نے اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا، ’’میں لڑکپن سے ہی بے حد ایمان دار تھا۔ ایک دن میں اپنے گھر کے سامنے کھیل رہا تھا کہ میرے کان میں آواز آئی، ’’میٹھے سیب دو آنے میں، دو آنے میں۔‘‘ ایک شخص ٹھیلا گاڑی دھکیلتا ہوا سڑک سے گزر رہا تھا۔ گاڑی میں گول گول، سرخ و سپید سیب بڑے پیارے لگ رہے تھے۔ میری جیب میں پیسے نہیں تھے مگر میرا دل سیبوں پر للچا رہا تھا۔ میں نے گاڑی والے کی آنکھ بچا کر ایک سیب اڑا لیا اور بغل کی گلی میں گھس گیا۔ جیسے ہی میں نے سیب پر منہ مارا میرا دل مجھے ملامت کرنے لگا۔ میں بے چین ہو گیا اور دوڑتا ہوا گلی سے باہر نکلا، سیب والے کے پاس پہنچ کر میں نے وہ سیب گاڑی میں رکھ دیا۔ اور اس کی جگہ ایک پکا اور میٹھا سیب اٹھا لیا۔‘‘

مارک ٹوین کو شام کے وقت ایک لیکچر دینا تھا۔ دوپہر کو وہ بال کٹوانے گیا۔ نائی نے قینچی سنبھالی اور حسبِ عادت زبان بھی قینچی کی طرح چلانے لگا، ’’جناب عالی! آج شام کو مارک ٹوین کا لیکچر ہونے والا ہے۔ کیا آپ نے ٹکٹ خرید لیا ہے؟ نہ خریدا ہو تو خرید لیجیے ورنہ لیکچر کھڑے رہ کر ہی سننا پڑے گا۔‘‘

مارک ٹوین نے بڑی سادگی اور سنجیدگی سے کہا، ’’بھائی تمہاری رائے کا شکریہ۔ لیکن میں بڑا بدنصیب ہوں کیوں کہ جب بھی مارک ٹوین کا لیکچر ہوتا ہے مجھے تو کھڑا ہی رہنا پڑتا ہے۔‘‘

کسی نے مارک ٹوین سے پوچھا، بڑی بھول اور چھوٹی بھول میں کیا فرق ہے؟‘‘
مارک نے ٹھنڈے دل سے جواب دیا۔ ’’دیکھو اگر تم کسی ہوٹل میں چائے پینے کے بعد واپسی میں بھول سے اپنی پرانی چھتری کے بجائے کسی کی نئی چھتری اٹھا لاؤ تو یہ چھوٹی بھول ہے۔ مگر اس کے برعکس اپنی نئی چھتری کے بجائے کسی کی پرانی چھتری اٹھا لاؤ تو یہ بڑی بھول ہوگی۔‘‘

عالمی شہرت یافتہ طنز نگار مارک ٹوین کی ذاتی زندگی کے دو بڑے المیے ان کی دو جوان بیٹیوں کی اچانک موت ہیں۔ مارک ٹوین کی 24 سالہ بیٹی سوزی سنہ 1896ء میں انتقال کر گئی تھی۔ بیٹی کی موت کے صدمے سے نڈھال مارک ٹوین کو چند برس بعد 1904ء میں اپنی اہلیہ اولیویا کو بھی کھونا پڑا اور وہ بہت ٹوٹ گئے۔ سنہ 1909ء میں ان کی دوسری بیٹی بھی صرف 29 برس کی عمر میں چل بسی اور اس کے اگلے برس مارک ٹوین بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ حاضر جواب اور برجستہ گو مارک ٹوین کو بابائے امریکی ادب بھی کہا جاتا ہے۔

Comments

- Advertisement -