تازہ ترین

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی رہنماؤں پر توہین مذہب کا مقدمہ درج کرنے سے روک دیا

اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کیخلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کرنے سےروک دیا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے مذہب کوسیاست کیلئے استعمال نہ کیا جائے.

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں قاسم سوری کی ایف آئی آر اور ہراساں کیے جانے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی ، سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔

وکیل قاسم سوری نے عدالت کو بتایا کہ پولیس اور ایف آئی اے کو ہراساں کرنے سے روکا جائے اور پولیس کو گرفتاری سے بھی روکا جائے، جس پر عدالت نے ایف آئی اے اور پولیس سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔

وکیل نے کہا کہ ایف آئی اے اور پولیس کے قاسم سوری کے خلاف اقدامات غیر قانونی ہیں، عدالت کی طرف سے دی گئی ہدایات کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، جس کے بعد عدالت نے قاسم سوری کی درخواست فوادچوہدری اوردیگرکیسز کے ساتھ منسلک کردی۔

دوران سماعت مسجد نبوی واقعہ کے بعد پی ٹی آئی کے خلاف کیسز میں پی ٹی آئی کی درخواستوں پرایف آئی اے نے جواب اسلام آبادہائیکورٹ میں جمع کرایا ، جس میں کہا گیا کہ مسجد نبوی واقعےکےتناظرمیں کوئی کاروائی شروع نہیں کی، کاؤنٹر ٹیررازم اورسائبرکرائم ونگ میں کارروائی شروع نہیں ہوئی، مقامی پولیس کی جانب سے واقعہ پرکارروائی شروع کی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی رہنماؤں کےخلاف مقدمات کےاندراج سےمتعلق درخواست پرسماعت ہوئی ، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست پر سماعت کی۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے فیصل چوہدری، علی بخاری و دیگر عدالت میں پیش ہوئے جبکہ وفاقی کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ کبھی بھی سیاسی مخالفین نے توہین مذہب کیس نہیں بنائے ، ماضی میں بھی بہت غلطیاں ہوئے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا، پاکستان میں ہم نے کوئی فساد تو نہیں کرنا، وزیر داخلہ سےکوئی توقع نہیں ، مگروزیر قانون سےیہ امید نہیں تھی، اپنی حرکتوں سے معاشرے کو تقسیم کردیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا آپ چاہتے ہیں کہ عدالت کیس کو سنیں ؟ آپ پر اعتماد نہیں ہوگا توکس پر اعتماد ہوگا، معاشرے میں استحکام صرف سیاسی لوگ ہی لا سکتے ہیں ،مذہبی الزامات لگانا بہت بڑی بدقسمتی ہے، جس پر فواد چوہدری نے کہا موجودہ حکومت کے علاوہ کسی حکومت میں ایسا نہیں ہوا تو جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سری لنکن منیجر، مشال خان سمیت بہت سےکیس موجود ہیں۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ نے اسلام آباد پولیس کی رپورٹ جمع کرائی، فیصل چوہدری نے کہا آئی جی اسلام آباد کی رپورٹ میں کہا 4درخواستوں پرتفتیش ہورہی ہے، جس پر چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ سیاست میں تحمل اور رواداری بہت ضروری ہے،سیاسی رہنماؤں کو بہت ذمےداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جس ایف آئی آر کی کاپی عدالت کو جمع کرائی وہ تو نامکمل ہے ، ان چیزوں کو وفاقی حکومت کو خود دیکھنا چاہیے، ریاست کودیکھنا چاہیے کہ مذہب کو غلط استعمال نہ کیا جائے ،ریاست کا کام ہے کہ مذہب کوسیاست میں نہ گھسیٹاجائے ، ریاست نے ماضی میں مذہب سے متعلق ایسے اقدامات کیے جو نقصان دہ ثابت ہوئے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ایف آئی آر میں ایسا کچھ ہے نہیں تو درج کیوں ہوئی ؟ یا کہیں کہ مذہب کوسیاست کےماضی میں غلط استعمال نہیں کیا؟ وکیل نے بتایا کہ پنجاب میں کوئی حکومت نہیں یہاں صرف وفاقی حکومت ہے، وزارت داخلہ کےحکم پرمقدمات درج ہوئے۔

فواد چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ 700لوگوں کے نام ایف آئی آر میں درج کیےگئے، سیاسی قیادت کے ساتھ ادارتی قیادت بھی ہونی چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا
اس ملک کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کیا سیالکوٹ کے واقعے سے ریاست نے سبق نہیں سیکھا؟ توہین مذہب کوسیاسی مقاصد کےلیےاستعمال کرنے سے کیسےروکا جائے؟ وفاقی حکومت یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے، مدینہ منورہ میں جو واقع ہوا نہیں ہونا چاہیے تھا،انکا کہنا ہے کہ مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزارت داخلہ اور ڈی پی او سےرپورٹ مانگنے کی اجازت دی جائے، فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ معاملے پر لوگ قتل کریں گے ،حکومت کو معاملے کو دیکھنا چاہیے۔

وکیل قاسم سوری نے بتایا کہ میرے موکل قاسم سوری پر بھی رمضان میں حملہ کیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو ماضی میں ہوا لوگوں کی زندگیاں چلی گئی، ریاست کی ذمےداری ہے کہ ان معاملات کو غور سے دیکھے، ریاست دیکھےکہ مذہب کو سیاست کے لیے استعمال نہ کرے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مجھے ہدایات لینے کے لیے مزید وقت درکار ہوگی،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ماضی میں جو ہوا اس سے بہت نقصان ہوا، کیا ریاست نے اپنی ذمے داری پوری کی ہے؟ جب سےآئین بنا تب سے کسی نے اس جانب توجہ ہی نہیں دی، ریاست اس حوالے سے اپنی ذمے داریاں کیسے پوری کرسکتی ہے؟

دوران سماعت فواد چوہدری نے کہا سیاست اتنی اہم نہیں کہ لوگوں کی لاشوں کی اوپرسےہوکرجائے، ہم ایک دوسرے کے خلاف سیاست کے لیے مذہب کااستعمال نہیں کریں گے۔

وکیل پی ٹی آئی استدعا کی کہ جومقدمات رجسٹرنہیں ہوئے وہ تمام مقدمات ختم کرنے کاحکم دیا جائے،یہ کہنا چاہ رہے آپ کیسز سن رہے تویہاں اسی وجہ سےمقدمات درج نہیں ہوئے، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نےکہا کہ لوگوں کے مذہبی جذبات ہیں اسی وجہ سے انہوں درخواستیں دی، تو فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ کیسے جذبات ہیں کہ سب نے ایک جیسے درخواستیں دی۔

چیف جسٹس نے کہا مستعفی ہونے سے پہلے انکو بھی اس معاملے کو حل کرنے چاہیے تھا تو فواد چوہدری نے کہا قانون تو بہت ہی واضح ہے ،جس پرچیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے قانون تو آئین بھی ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ

عدالت نے پی ٹی آئی رہنماؤں کےخلاف ایف آئی آردرج کرنے سےروکتے ہوئے کہا حکام ایف آئی آر درج نہیں کریں گے۔

Comments

- Advertisement -