امید اور ناامیدی، توقعات اور ان کے پورے ہونے پر خوشی یا مراد پوری نہ ہونے پر رنجیدہ ہونا انسان کی فطرت ہے اور یہ وہ موضوع ہے جو آج بھی ہم مختلف کتابوں اور ویڈیوز کی شکل میں پڑھتے اور سنتے ہیں لیکن یہ قدیم طرزِ انشا میں ایک خوب صورت مضمون ہے جس کے مصنّف ماسٹر رام چندر ہیں۔
ماسٹر رام چندر متحدہ ہندوستان کے برطانوی راج کے ایک عالم فاضل، مدرس اور قابل مضمون نگار تھے۔ مضمون ملاحظہ کیجیے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مدار کار خانۂ عالم کا امید و توقع کے ساتھ مربوط ہے۔ کوئی شخص دنیا میں ایسا نہیں پایا جاتا کہ جو امید و توقع سے خالی ہو۔ کوئی شخص یہ توقع کرتا ہے کہ مجھے دار عقبیٰ میں یہ یہ نعمتیں اور خوشیاں حاصل ہوں گی اور واسطے کامیابی کے اپنے اوقات کو عبادت حق تعالیٰ میں صرف کرتا ہے۔ کسی کو یہ امید ہے کہ مجھے دنیا میں یہ اسباب خوشی اور راحت کے نصیب ہوں گے اور وہ واسطے ان مطالب کے مساعی ہے۔
ہم خاصہ طبیعتِ انسانی کا دیکھتے ہیں کہ اسے امید و توقع میں بڑی خوشی رہتی ہے اور وہ اس امید میں اپنے نفس پر بڑی تکالیف اور محنتیں اختیار کرتا ہے۔ جن لوگوں کو یہ آرزو ہوتی ہے کہ ہم نیک نامی حاصل کریں اور مراتبِ عالیہ کو پہنچیں، وہ اپنے تئیں بڑی بڑی مہلکہ مصائب میں ڈالتے ہیں اور ان مصیبتوں کو راحت خیال کرتے ہیں۔ جن لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہم بہت سا روپیہ اور عزت حاصل کریں وہ بڑے بڑے دور دراز ملکوں کا سفر اختیار کرتے ہیں اور اپنے نفس پر جبر کر کے محنت سے منھ نہیں پھیرتے۔
اگر سکندر فتوحِ ممالک کی کوشش، نہ توقع کرتا تو وہ سفر بحری اور بری نہ اختیار کرتا اور سرحد ہندوستان تک نہ پہنچتا۔ بعضے لوگوں کا ہم یہ حال دیکھتے ہیں کہ جب ان کو امید کی طرف سے مایوسی ہوجاتی ہے تو اپنی زندگانی کو تلف کر دیتے ہیں اور اپنے تئیں اپنے ہاتھ سے ہلاک کرتے ہیں۔ اہلِ خطا کا تاریخوں میں یہ حال دیکھا ہے کہ وہاں کے لوگوں میں یہ رسم ہے کہ جب ان پر فقر وفاقہ گزرتا ہے اور صفائی و عیش سے مایوسی ہو جاتی ہے یا اور کسی طرح کی مصیبت آتی ہے تو وہ اپنے تئیں ہلاک کرتے ہیں۔ اس طرح جب ان میں سے کسی کے ہاں اس حال میں لڑکا پیدا ہوتا ہے، وہ پہلے پہلے اس کی زندگانی سے مایوس ہو کر اس کو راستے میں ڈال دیتے ہیں۔ اگر اس کو کسی نے وہاں سے اٹھایا تو اس کی جان باقی رہی، وگرنہ ہاتھی یا گھوڑوں کے پاؤں کے تلے دب کر مر جاتے ہیں۔
واقعی میں آدمی کے تئیں ایسا نہ چاہیے کہ تھوڑی سی مایوسی کے ساتھ اپنی جان کو تلف کردے۔ حقیقت میں دنیا جگہ آزمائش کی ہے۔ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے صبر اور محنت کا امتحان کرتا ہے۔ مرد وہ ہے کہ مصیبت پر صبر کرے اور جو کچھ اس پر گزرے تحمل کرے، نہ یہ کہ اس کا متحمل نہ ہوکر اپنے تئیں ہلاک کر دے۔ جس شخص نے حال فرہاد کوہکن کا دیکھا ہوگا اس پر شہادت اس امر کی روشن ہوگی کہ اس کی جان کھونے کا یہی باعث ہوا کہ جب وہ کوہِ بے ستوں کو کاٹ چکا، اور اس کی امید بر آنے میں ایک دو دن کا عرصہ باقی رہا تو خسرو نے از راہ فریب ایک عورت کے ہاتھ یہ کہلا بھیجا کہ شیریں کا وصال ہوا۔ جب اس نے یہ خبر سنی تو وہ وصال شیریں سے مایوس ہوگیا اور اپنے سر میں تیشہ مار کے مر گیا۔
آدمی کے تئیں چاہئے کہ اس طرح کی امیدیں نہ کرے کہ جو اس کی نسبت محال اور غیر ممکن معلوم ہوتی ہوں۔ اس طرح کی امید کو خبط سمجھنا چاہئے۔ آدمی وہ امیدیں کرے جو جلدی حاصل ہو جاویں اور اس کی سعی اور کوشش اس میں بیکار نہ ہو۔ بعضے لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بڑے ذی اقتداروں کا حال دیکھ کر یہ جانتے ہیں کہ ہمارے تئیں بھی یہی حاصل ہو۔ جب وہ ان کے عیش و عشرت اور کامیابی مقاصد کو دیکھتے ہیں تو جانتے ہیں کہ ہمارے تئیں بھی یہ نعمتیں اور یہی حکومت اور اختیار حاصل ہو جاوے۔ حالانکہ وہ ہنر سے بے بہرہ اور کوشش سے بیزار ہیں۔ گھر بیٹھے چاہتے ہیں کہ ہم کو ملک دنیا کا مل جاوے۔ پس اس صورت میں سوائے رنج و الم اور کیا انہیں حاصل ہو سکتا ہے۔
بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کہیں سے مدفون خزانہ ہمارے ہاتھ لگ جاوے تو بہت خوب ہے اور خوب چین سے زندگی گزرے۔ اب دیکھو پانا خزانے کا کیسی بعید بات ہے اور شاید اس طرح دولت کسی بشر کو نصیب ہوتی ہوگی۔ بعض لوگ بتوقع کیمیاء کی اپنی بہت سی دولت اور روپیہ پھونک دیتے ہیں۔ کیمیاء بنانی تو نہیں آتی مگر اور گھر کے نقد کو بھی کھو دیتے ہیں اور اسی توقع میں مر جاتے ہیں۔