جمعہ, نومبر 15, 2024
اشتہار

مینار پاکستان واقعہ : یہ سوچ آخر کیوں پروان چڑھ رہی ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

لاہور : مینار پاکستان میں ٹک ٹاکر خاتون کے ساتھ پیش آنے والے شرمناک واقعہ کے خلاف سوشل میڈیا سمیت میڈیا پر بھی بحث کا سلسلہ جاری ہے۔

پولیس نے واقعے کا مقدمہ درج کرکے تفتیش اور ملزمان کی گرفتاری کیلئے کارروائیوں کا آغآز کردیا ہے لیکن دوسری جانب ایک اور بحث نے جنم لے لیا۔

ملک بھر کے عوام اس شرمسار واقعہ کے حوالے سے برہمی کا اظہار کررہے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے خاتون کی تضحیک کرنے والے بدکرداروں کو نشان عبرت بنانے کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔

- Advertisement -

اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے سائیکالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ علی نے کہا کہ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے نوجوانوں کا رویہ کس طرف جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ مینار پاکستان جیسے عظیم مقام پر ایسا دلخراش واقعہ پیش آیا جس نے ہمارے ملک کو دنیا مین بدنام کردیا۔

ڈاکٹرعظمیٰ علی نے کہا کہ ہمیں اس معاشرے کی بہتری کیلیے نئی نسل کی تربیت کرنا ہوگی، اس لیے والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی ذہنی اور نفسیاتی طور پر رہنمائی کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لوگ بے حس ہوچکے ہیں ان کو کسی عزت و ناموس اور تکلیف کا کوئی احساس نہیں یہی وجہ ہے کہ وہاں موجود کچھ لوگ لڑکی کو بچانے کے بجائے ویڈیوز بنانے میں مصروف تھے۔

یاد رہے کہ 14 اگست کے روز مینار پاکستان پر موجود خاتون عائشہ اکرم کو وہاں موجود 400 افراد کی جانب سے تشدد، جنسی حملے اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر آنے پر پولیس نے 3 روز بعد مقدمہ درج کیا تھا۔

گزشتہ رات گئے لاہور پولیس نے راوی روڈ، بادامی باغ، لاری اڈا اور شفیق آباد کے علاقوں میں چھاپہ مار کارروائیاں بھی کی ہیں اور 15 افراد کو حراست میں لے کر تھانہ لاری اڈا منتقل کردیا۔

پولیس کا کہنا ہے زیر حراست افراد کے موبائل نمبرز کی 14 اگست کی لوکیشن ٹریس کی جائے گی اور زیر حراست افراد کو ویڈیوز میں نظر آنے والے ملزمان سے میچ کیا جائے گا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں