اسلام آباد : سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے فوجی عدالتوں کے کیس میں سوال کیا کہ کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہوگا؟کیا اس کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوگا؟
تفصیلات سپریم کورٹ میں آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت کی ، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قرار دیا فوج کے ماتحت سویلینز کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔
جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا موجودہ کیس میں متاثرہ فریق اور اپیل دائر کرنے والاکون ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ اپیل وزارت دفاع کی جانب سے دائر کی گئی ہے تو جسٹس جمال کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع ایگزیکٹو کا ادارہ ہے، ایگزیکٹو کیخلاف اگر کوئی جرم ہوتو کیا وہ خود جج بن کرفیصلہ کرسکتاہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے، آئین واضح ہے ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کرسکتا، فوجی عدالتوں کے کیس میں یہ بنیادی آئینی سوال ہے تو وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی اورفورم دستیاب نہ ہوتو ایگزیکٹو فیصلہ کرسکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ قانون میں انسداد دہشت گردی عدالتوں کا فورم موجود ہے، قانونی فورم کے ہوتے ہوئے ایگزیکٹو خود کیسے جج بن سکتا ہے؟ جس پر وکیل وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ آپ کی بات درست ہے، بنیادی آئینی حقوق کی بنیاد پر آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس جمال کا کہنا تھا کہ کوئی شہری فوج کا حصہ بن جائے تو کیا بنیادی حقوق سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، ملٹری کورٹس کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 175 سے الگ ہے، کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہوگا؟ کیا کام سے روکنے کے الزام پر ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے گا؟
جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ تو آپ نے ایک صورتحال بتائی اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا، جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ یہ تو سب سے متعلقہ سوال ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے بھی ریمارکس میں کہا کہ اس سوال کا جواب بہت سادہ سا ہے، وہ شہری آرمی ایکٹ میں درج جرم کا مرتکب ہوا تو ٹرائل چلے گا، صرف چوکی کے باہر کھڑے ہونے پر تو کچھ نہیں ہو گا، جس پر وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ ملٹری کورٹس ٹرائل پرآرٹیکل 175 کا اطلاق نہیں ہوتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کو فوج کے ڈسپلن میں لانے کیلئے لایا گیا، شہری آرمڈ فورسز میں شامل ہو تو بنیادی حقوق کے تحت عام عدالتوں میں معاملہ چیلنج نہیں کرسکتا، ہمارے ملک میں 14 سال تک مارشل بھی نافذ رہا تو وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ آرمڈ فورسز کے فرائض میں شہری مداخلت کرے تو آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید وکیل سے مکالمے میں کہا کہ فرض کریں ایک چیک پوسٹ پر عام شہری جانےکی کوشش کرتا ہے ، کیا یہ بھی آرمڈ فورسز کے فرائض میں خلل ڈالنے کے مترادف ہوگا، آپ کےدلائل سے تعریف اتنی وسیع ہوتی جا رہی ہے کہ سب کو پھر شامل کر لیا جائے گا۔
جسٹس محمد علی مظہر کا بھی کہنا تھا کہ اس کیس کے دو حصے ہیں، ایک حصہ آرمی ایکٹ کی شقوں کو کالعدم قرار دینے سے متعلق ہے، دوسرا حصہ سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل کا سوال بہت اہم ہے، کسی چیک پوسٹ پر سویلین کا تنازع ہو جائے تو ٹرائل کہاں ہوگا، اختیارات کو وسیع کرکے سویلین کا ٹرائل ہو رہا ہے، سوال یہ ہے کہ سویلین کا ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ آرمی ایکٹ کا نفاذ کن جرائم پر ہوگا اس کا جواب آرمی ایکٹ میں موجود ہے۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے ، سماعت کے اختتام پر حفیظ اللہ نیازی روسٹرم پر آئے ، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ سیاسی بات کریں گے، جس پر ،حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ میں سیاسی بات بالکل نہیں کروں گا، ملزمان کو فیصلوں کے بعد جیلوں میں منتقل کردیا گیا ہے، ملزمان کوعام جیلوں میں دیگر قیدیوں کی طرح تمام حقوق نہیں مل رہے۔
سپریم کورٹ نے جیلوں میں 9 مئی ملزمان سے رویے پر رپورٹ طلب کرلی اور کل سماعت کیلئے مقرر دیگر کیسز منسوخ کر دیے۔
جسٹس امین الدین خان نے خواجہ حارث کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کل بھی صرف فوجی عدالتوں کا کیس ہی سنا جائے گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے سپریم کورٹ نے توحکم بھی جیل مینول کے مطابق سلوک کا دیا تھا، پنجاب اور وفاقی حکومت عدالتی حکم کو نہیں مان رہے۔