مرزا غالب اپنے دوست حاتم علی مہر کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں، ’’مغل بچے بھی عجیب ہوتے ہیں کہ جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں، میں نے بھی اپنی جوانی میں ایک ستم پیشہ ڈومنی کو مار رکھا تھا۔‘‘
سنہ بارہ سو چونسٹھ ہجری میں مرزا غالب چوسر کی بدولت قید ہوئے۔ اس واقعہ کے بارے میں ایک فارسی خط میں لکھتے ہیں، ’’کوتوال دشمن تھا اور مجسٹریٹ ناواقف، فتنہ گھات میں تھا اور ستارہ گردش میں، باوجودیکہ مجسٹریٹ کوتوال کا حاکم تھا، میرے معاملے میں کوتوال کا ماتحت بن گیا۔ اور میری قید کا حکم سنا دیا۔‘‘
افسانہ نگار کے لیے یہ چند اشارے مرزاغالب کی رومانی زندگی کا نقشہ تیار کرنے میں کافی مدد دے سکتے ہیں۔ رومان کی پرانی مثلث تو ’’ستم پیشہ ڈومنی‘‘ اور ’’کوتوال دشمن تھا‘‘ کے مختصر الفاظ نے ہی مکمل کر دیے ہیں۔ ستم پیشہ ڈومنی سے مرزا غالب کی ملاقات کیسے ہوئی۔ آئیے ہم تصور کی مدد سے اس کی تصویر بناتے ہیں۔
صبح کا وقت ہے، مرغ اذانیں دے رہے ہیں۔ مرزا نوشہ ہوادار میں بیٹھا ہے جسے چار کہار لیے جا رہے ہیں، مرزانوشہ کے بیٹھنے سے پتہ چلتا ہے کہ سخت اداس ہے، اداسی کی وجہ یہ ہے کہ اس نے مشاعرے میں اپنی بہترین غزل سنائی مگر حاضرین نے داد نہ دی۔ ایک فقط نواب شیفتہ نے اس کے کلام کو سراہا اور صدر الدین آزردہ نے اس کا حوصلہ بڑھایا تھا، لیکن بھرے ہوئے مشاعرے میں دو آدمیوں کی داد سے کیا ہوتا ہے، مرزا نوشہ کی طبیعت اور بھی زیادہ مکدر ہوگئی تھی جب لوگوں نے ذوق کے کلام کو صرف اس لیے پسند کیا کیونکہ وہ بادشاہ کا استاد تھا۔
مشاعرہ جاری تھا مگر مرزا نوشہ اٹھ کر چلا آیا۔ وہ اور زیادہ کوفت برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ مشاعرے سے باہر نکل کر وہ ہوا دار میں بیٹھا، کہاروں نے پوچھا، ’’حضور! کیا گھر چلیں گے؟‘‘ مرزا نوشہ نے کہا، ’’نہیں! ہم ابھی کچھ دیر سیر کریں گے۔ ایسے بازاروں سے لے چلو جو سنسان پڑے ہوں۔‘‘ کہار بہت دیر تک مرزا نوشہ کو اٹھائے پھرتے رہے، جس بازا سے بھی گزرتے وہ سنسان تھا، چودھویں کا چاند ڈوبنے کے لیے نیچے جھک گیا تھا۔ اس کی روشنی اداس ہوگئی تھی۔ ایک بہت ہی سنسان بازار سے ہوا دار گزر رہا تھا کہ دور سے سارنگی کی آواز آئی۔ بھیرویں کے سُر تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد کسی عورت کے گانے کی تھکی ہوئی آواز سنائی دی، مرزا نوشہ چونک پڑا۔ اسی کی غزل کا ایک مطلع بھیرویں کے سروں پر تیر رہا تھا،
نکتہ چیں ہے، غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
آواز میں درد تھا، جوانی تھی لیکن یہ مطلع ختم ہوتے ہی آواز ڈوب گئی۔
دور ایک کوٹھے پر ملکہ جان جماہیاں لے رہی ہے۔ چاندنی بچھی ہوئی ہے، جس کی سلوٹوں سے اور موتیا اور گلاب کی بکھری اور مسلی ہوئی پتیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ناچ کی محفل کو ختم ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔ ملکہ جان نے ایک لمبی جماہی لی اور اپنا ضعیف بدن جھٹک کر اپنی سانولی سلونی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں والی نوچی سے جو گاؤ تکیے پر سر رکھے اپنی گاودم انگلیاں چٹخا رہی تھی کہا، ’’مومن ہے، شیفتہ ہے، آزردہ ہے، استاد شاہ ذوق ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کل کے اس مبتدی شاعر غالب کے کلام میں کیا دھرا ہے کہ جب نہ تب تو اسی کی غزل گائے گی۔‘‘ نوچی مسکرائی۔ اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں چمک پیدا ہوگئی۔ ایک سرد آہ بھر کر اس نے کہا،
دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
ملکہ جان نے پہلے سے بھی زیادہ لمبی جماہی لی اور کہا، ’’بھئی اب سو بھی چکو۔ بہت راہ دیکھی جمعدار حشمت خاں کی۔‘‘
شوخ چشم نوچی نے انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر بازو اوپر لے جا کر ایک جماہی لیتے ہوئے کہا، ’’بس اب آتے ہی ہوں گے۔ میں نے تو ان سے کہا تھا مرزا غالب کے آگے سے جوں ہی شمع ہٹے وہ ان کی غزل کی نقل لے کر چلے آئیں۔‘‘ ملکہ جان نے برا سامنہ بنایا، ’’اس نگوڑے مرزا غالب کے لیے اب تو اپنی نیند بھی حرام کرے گی۔‘‘ نوچی مسکرائی۔ سامنے فدن میاں سارنگی پر ٹھوڑی ٹکائے پنک میں اونگھ رہا تھا۔ نوچی نے طنبورہ اٹھایا اور اس کے تار ہولے ہولے چھیڑنا شروع کیے، پھر اس کے حلق سے خود بخود شعر راگ بن کر نکلنے لگے۔
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نے بنے
فدن میاں ایک دم چونکا۔ آنکھیں مندی رہیں، لیکن سارنگی کے تاروں پر اس کا گز چلنے لگا۔
میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبۂ دل
اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے
گانے والی کی تسکین نہ ہوئی چنانچہ اس نے شعر کو یوں گانا شروع کیا،
میں بلاتی تو ہوں اس کو مگر اے جذبۂ دل
ان پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے
ملکہ جان ایک دم چونکی۔ اس نے نوچی کو اشارہ کیا، وہ بھی چونک پڑی، سامنے دہلیز میں مرزا نوشہ تھا۔ ملکہ جان فوراً اٹھی اور تسلیمات بجائی، نوچی نے بھی اٹھ کر کھڑے قدم تعظیم دی، یہ جان کر کہ شہر کے کوئی رئیس ہیں، ملکہ استقبال کے لیے آگے بڑھی، ’’آئیے، آئیے، تشریف لائیے، زہے قسمت کہ آپ ایسے رئیس مجھ غریب کو سرفراز فرمائیں۔ آپ کے آنے سے میرا گھر روشن ہوگیا۔‘‘
مرزا نوشہ نے حسنِ ملیح کے نادر نمونے کی طرف دیکھا، نوچی نے جھک کر کہا، ’’آئیے ادھر مسند پر تشریف رکھیے۔‘‘ مرزا نوشہ ذرا رک کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا، ’’تمہارا گلا بہت سریلا ہے اور تمہاری آواز میں درد ہے، نہ جانے کیوں بے کھٹک اندر چلا آیا۔ کیا تمہارا نام پوچھ سکتا ہوں؟‘‘
نوچی نے پاس ہی بیٹھتے ہوئے کہا، ’’جی! مجھے چودھویں کہتے ہیں۔‘‘ مرزا نوشہ مسکرایا، ’’یعنی آج کی رات۔‘‘ چودھویں مسکرا دی، مرزا نوشہ نے کہا، ’’بھئی خوب گاتی ہو۔‘‘ چودھویں نے حسبِ دستور جواب دیا، آپ مجھے بنا رہے ہیں۔‘‘
مرزا نوشہ کو مذاق سوجھا، ’’بنائی ترکاری سبزی جاتی ہے تم کو تھوڑا ہی بنایا جا سکتا ہے۔‘‘ چودھویں کو کچھ جواب دینا ہی تھا، چنانچہ اس نے کہا، ’’خوب! خوب! یہ بھی خوب! میں بنی بنائی ہوں، اللہ نے مجھے بنایا ہے۔‘‘ مرزا نوشہ نے اسی لہجے میں کہا ’’اللہ نے سبھی کو بنایا ہے، پر تم بنی ابھی، نئی بنی ہو۔‘‘
چودھویں کے سانولے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کے چمکیلے دانت موتیوں کی طرح چمکے۔ مرزا نوشہ نے فرمائش کی، ’’ضلع جگت کی چھوڑو اور ذرا پھر وہی غزل گاؤ، نامعلوم کس کی غزل ہے۔۔۔ نکتہ چیں ہے غم دل۔۔۔ ہاں ذرا شروع کرو۔‘‘
چودھویں کو فرمائش کا یہ انداز پسند نہیں آیا۔ چنانچہ اس نے ذرا تنک کر کہا، ’’یہ غزل غالب کی ہے اور غالب کا سمجھنا کوئی سہل نہیں۔‘‘ مرزا نوشہ نے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
’’سمجھے تو کوئی پختہ کار سمجھے، آپ ایسے نوجوان کیا سمجھیں گے؟‘‘ مرزا نوشہ مسکرایا، ’’بھاؤ بتا کر گاؤ تو کچھ بھاؤ کے انگوں سے شاید سمجھ لوں۔‘‘ اب چودھویں کو جگت سوجھی، پھلکی سی ناک چڑھا کر کہا، ’’بھاؤ کا بھاؤ مہنگا پڑ جائے گا۔‘‘ مرزا نوشہ ایک لمحہ کے لیے خاموش ہوگیا، پھر چودھویں سے مخاطب ہوا، ’’آپ کو غالب کا کلام بہت پسند ہے۔‘‘ چودھویں نے مسکرا کر جواب دیا، ’’جی ہاں!‘‘
ملکہ جان جو ابھی تک خاموش بیٹھی تھی مرزا نوشہ سے مخاطب ہوئی، ’’حضور! کئی بار سمجھا چکی ہوں اسے کہ ذوق ہے، مومن ہے، نصیر ہے، شیفتہ ہے۔ سب مانے ہوئے استاد ہیں، پَر نہ جانے اسے اس عطائی شاعر غالب میں کیا خاص بات نظر آتی ہے کہ آپ مومن کی فرمائش کریں گے اور یہ غالب شروع کردے گی۔‘‘
مرزا نوشہ نے مسکرا کر چودھویں کی طرف دیکھا اور کہا، ’’ایسی کوئی خاص بات ہو گی؟‘‘
چودھویں سنجیدہ ہوگئی، ’’یہ تو وہی سمجھے جسے لگی ہو۔‘‘
مرزا نوشہ نے دل چسپی لیتے ہوئے پوچھا، ’’کیا میں سن سکتا ہوں وہ آپ کے دل کی لگی کیا ہے؟‘‘
چودھویں نے سرد آہ بھری۔ ’’نہ پوچھیے کہاں میں ایک غریب ڈومنی، کہاں غالب! جانے دیجیے اس بات کو، کہیے آپ کس کی غزل سنیں گے؟‘‘ مرزا نوشہ مسکرایا، ’’غالب کی، اور کہیے تو میں آپ کو غالب کے پاس لے چلوں، چودھویں کا چاند برج اسد میں طلوع ہو جائے۔‘‘ چودھویں اس کا مطلب نہیں سمجھی، ’’مجھ ایسی کو وہ کیا پوچھیں گے۔ خاک ہو جائیں گے ہم ان کو خبر ہونے تک۔‘‘
مشاعرے میں مرزا نوشہ کو جو کوفت ہوئی تھی اب بالکل دور ہوچکی تھی، اس کے سامنے سانولے سلونے رنگ کی موٹی موٹی آنکھوں والی ایک لڑکی بیٹھی تھی جس کو اس کے کلام سے بے حد محبت تھی۔ یہ کیوں اور کیسے پیدا ہوئی، مرزا نوشہ بہت دیر تک باتیں کرنے کے باوجود بھی نہ جان سکا۔ آخر میں مرزا نوشہ نے اس سے پوچھا، ’’کیا تم نے غالب کو کبھی دیکھا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ چودھویں نے جواب دیا۔ مرزا نوشہ نے کہا، ’’میں انھیں جانتا ہوں بہت ہی بگڑے رئیس ہیں، تم چاہو تو میں انھیں لا سکتا ہوں یہاں۔‘‘ چودھویں کا چہرہ تمتما اٹھا، ’’سچ؟‘‘ مرزا نے کہا، ’’میں کوشش کروں گا۔‘‘
اور یہ کہہ کر جیب سے ایک کاغذ نکالا، ’’میرا کلام سنو گی؟‘‘ چودھویں نے رسمی طور پر کہا، ’’سنائیے۔۔۔ ارشاد!‘‘ مرزا نوشہ نے مسکرا کر کاغذ کھولا، ’’یوں تو میں بھی شعر کہتا ہوں پر تمہیں تو غالب کے کلام سے محبت ہے، میرا کلام تمہیں کیا پسند آئے گا۔‘‘ چودھویں نے پھر رسمی طور پر کہا، ’’جی نہیں، کیوں پسند نہ آئے گا، آپ ارشاد فرمائیے۔‘‘
مرزا نوشہ نے ابھی اس کاغذ کے دو ہی شعر سنائے ہوئے ہوں گے جو اس نے مشاعرے میں پڑھی تھی کہ چودھویں نے ٹوک کر پوچھا، ’’آپ اس مشاعرے میں شریک تھے جو مفتی صدرالدین آزردہ کے یہاں ہو رہا تھا؟‘‘ مرزا نوشہ نے جواب دیا، ’’جی ہاں۔‘‘ چودھویں نے بڑے اشتیاق سے پوچھا، ’’غالب تھے؟‘‘ مرزا نوشہ نے جواب دیا، ’’جی ہاں۔‘‘ چودھویں نے اور زیادہ اشتیاق سے کہا، ’’کوئی ان کی غزل کا شعر یاد ہو تو سنائیے۔‘‘ مرزا نوشہ نے افسوس ظاہر کیا اور کہا کہ ’’اس وقت کوئی یاد نہیں آرہا ہے۔‘‘
اس نے اب مذاق کو زیادہ طول نہ دینا چاہا۔ ایک گلوری چودھویں کے ہاتھ کی بنی ہوئی لی، خاص دان میں ایک اشرفی رکھی اور رخصت چاہی۔
کوٹھے سے نیچے اترا تو سیڑھیوں کے پاس مرزا نوشہ کی مڈ بھیڑ جمعدار حشمت خاں سے ہوئی جو مشاعرے سے واپس آ رہا تھا۔ حشمت خاں اس کو دیکھ کر بھونچکا رہ گیا، ’’مرزا نوشہ! آپ یہاں کہاں؟‘‘ مرزا نوشہ خاموش رہا، حشمت خاں نے معنی خیز انداز میں کہا، ’’تو یہ کہیے کہ آپ کا بھی اس وادی میں کبھی کبھی گزر ہوتا ہے۔‘‘ مرزا نوشہ نے مختصر سا جواب دیا، ’’فقط آج اور وہ بھی اتفاق سے۔ خدا حافظ۔‘‘
یہ کہہ کر وہ ہوا دار میں بیٹھ گیا، حشمت خاں اوپر گیا تو چودھویں دیوانہ وار اس کی طرف بڑھی، ’’کہیے غالب کی غزل لائے؟‘‘
حشمت خاں کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہے۔ غزل کا کاغذ جیب سے نکالا اور بڑبڑایا، ’’لایا ہوں۔۔۔ لو۔‘‘ چودھویں نے پُر اشتیاق ہاتھوں سے کاغذ لیا تو حشمت خاں نے ذرا لہجے کو سخت کرتے ہوئے کہا، ’’پر غالب تو ابھی ابھی تمہارے کوٹھے سے اتر کر گئے، یہ ماجرا کیا ہے؟‘‘ چودھویں چکرا سی گئی۔
’’غالب؟ میرے کوٹھے پر! ابھی ابھی اتر کر گئے! مجھے دیوانہ بنا رہے ہو۔ میرا کوٹھا کہاں۔۔۔ غالب کہاں؟‘‘
جمعدار نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا، ’’واقعی! سچ کہتا ہوں وہ غالب تھے جو ابھی ابھی تمہارے کوٹھے سے اترے۔‘‘ چودھویں اور زیادہ چکرا گئی، ’’جھوٹ؟‘‘
’’نہیں چودھویں سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘
چودھویں نے پاگلوں کی طرح حشمت خاں کو دیکھنا شروع کیا، ’’میری جان کی قسم غالب تھے؟ جھوٹ! مجھ کو بنا رہے ہو۔ اللہ! سچ کہو غالب تھے؟‘‘ حشمت خاں بھنا گیا، ’’ارے تمہاری ہی جان کی قسم غالب تھے۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب جو مرزا نوشہ کے نام سے مشہور ہیں اور جو اسد بھی تخلص کرتے ہیں۔‘‘ چودھویں بھاگی ہوئی کھڑکی کی طرف گئی، ’’ہائے میں مرگئی! غالب تھے!‘‘ نیچے جھانک کر دیکھا مگر بازار خالی تھا، ’’میرا ستیا ناس ہو! میں نے ان کی خاطر مدارات بھی نہ کی۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے غزل کا کاغذ کھول کر دیکھا اور سَر پیٹ لیا، ’’اللہ! یہ خواب ہے یا بیداری، سچ ہے۔ تو وہ غالب ہی تھے سو میں غالب ہزار میں غالب تھے۔ جمعدار صاحب! سچ کہا آپ نے وہ ضرور غالب تھے۔ ہائے! میں نے ان سے کہا آپ غالب کے کلام کو کیا سمجھیں گے۔ میں مر جاؤں۔۔۔ بھلا وہ کیا دل میں کہتے ہوں گے۔ ہائے کیسی میٹھی میٹھی باتیں کر رہے تھے۔ اُف! نہ معلوم کیا کیا ان سے کہہ گئی؟‘‘
یہ کہتے کہتے اس نے غزل کا کاغذ منہ پر پھیلا لیا اور رونے لگی۔
(از: سعادت حسن منٹو)