بدھ, جون 26, 2024
اشتہار

بھارت کے عدالتی نظام پر مودی سرکار کا قبضہ

اشتہار

حیرت انگیز

بھارت کے عدالتی نظام پر مودی سرکار نے قبضہ کرلیا، 2014 کے انتخابات کے بعد سے مودی کی شخصیت عروج پر لیکن بھارت کی جمہوریت زوال کا شکار ہے۔

رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کے لیے عدلیہ ہمیشہ سے ایک سیاسی ورثہ رہی ہے، مودی سرکار نے ریاستی اداروں کے ذریعے اپنی انتہا پسند پالیسیوں کو ہمیشہ کی طرح لاگو کروایا ہے۔

بھارتی نیوز ویب سائٹ اسکرول کے مطابق بھارت کی تمام عدالتوں میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد 2010 اور 2020 کے درمیان سال بہ سال 2.8 فیصد اضافہ ہوا، بی جے پی حکومت کے اقدامات نے التوا کے رجحان میں کوئی تبدیلی نہیں کی جس کے باعث لوگ انصاف کے منتظر ہیں۔

- Advertisement -

بھارتی ویب سائٹ کے مطابق مودی کے اقتدار کے بعد سے عدالتوں کو آن لائن منتقل ہونے پر مجبور کیا گیا جس سے بھارتی عدالتی نظام بری طرح متاثر ہوا، 2014 کے منشور میں انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کے مقدمات کو نمٹانے اور ذخیرہ اندوزی اوربلیک مارکیٹنگ کو روکنے کے لیے مودی سرکار نے عدالتوں کے قیام کا بھی وعدہ کیا لیکن ایسی کوئی عدالتیں نہیں بنائی گئیں۔

رپورٹ کے مطابق عدلیہ میں عدالتوں اور ججوں کی تعداد کو دوگنا کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا لیکن عدالتوں میں افسران کی کل منظور شدہ تعداد میں 2014 اور 2023 کے درمیان صرف 25 فیصد اضافہ ہوا، ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے مطابق  بھارت کے قانون کی حکمرانی کا مجموعی اسکور 2015 میں 0.51 سے  گر کر 2023 میں 0.49 ہو گیا۔

  بھارتی تجزیہ کار  کے مطابق بی جے پی حکومت کے دور میں بھارت میں قانون کی حکمرانی کا عمل بد سے بد ترین ہوتا چلا جا رہا ہے، 2019 کے منشور میں عوام کے  لیے ’’ماڈل پولیس ایکٹ‘‘ کے نفاذ کا وعدہ کیا گیا لیکن ایسا کوئی قانون نہیں بنایا گیا اور نہ ہی ایسا کوئی بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔

 دوسری جانب ہندوستان ٹائمز کا کہنا ہے کہ حکومت پر عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان گزشتہ دس برسوں میں تناؤ رہا ہے جسکے باعث حکومت کو عدالتی تقرریوں پر ویٹو کا استعمال کرنے کا موقع ملا ہے۔

اسکرول کی رپورٹ کے مطابق 2017 میں چیف جسٹس  دیپک مشرا کے خلاف سپریم کورٹ کے چار ججوں  نے پریس کانفرنس  کی، چیف جسٹس دیپک مشرا  کو مودی سرکار کی حمایت حاصل تھی جسکے باعث ججوں نے الزام لگایا کہ  مشرا کو باہر سے کسی کے ذریعے  کنٹرول کیا گیا تھا۔

اسکرول کے مطابق مودی سرکار اپنے من پسند ججز کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مراعات دیتی رہی ہے، بی جے پی حکومت  نے رنجن گوگوئی سپریم کورٹ کے سابق جج  کو عہدے سے سبکدوش ہونے کے فوراً بعد ہی  راجیہ سبھا کا رکن بنایا  دیا، بی جے پی حکومت نے سپریم کورٹ کے دو ججوں جسٹس پی ستھاشیوم اور ایس عبدالنذیر کو بھی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد گورنر کے طور پر مقرر کیا  تھا۔

بھارتی نیوز ویب سائٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے 2015 میں قومی جوڈیشل کمیشن کو عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی بنیاد پر ختم کر دیا تھا، 2014 اور 2019 کے دونوں منشوروں میں قانون کے طریقہ کار کو آسان بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

2014 کے منشور میں پیچیدہ قانون سازی کو آسان بنانے کے ساتھ متضاد قوانین کو ہٹانے کا وعدہ بھی کیا گیا لیکن قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، مودی سرکار نے اپنے مزموم سیاسی  مقاصد حاصل کرنے کے لیے عدلیہ کو بھی نہ چھوڑا، مودی سرکار کی عدلیہ میں غیر معمولی مداخلت اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت جمہوری ریاست سے تبدیل ہو کر مودی رجیم بن چکا ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں