الاسکا: امریکی محققین نے انکشاف کیا ہے کہ چاند اربوں سال سے زمین کے ماحول سے پانی کھینچ رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق یونیورسٹی آف الاسکا فیئربینکس کی جانب سے کی جانے والی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ چاند اربوں سال سے زمین سے پانی کھینچ رہا ہے اور اسے برف کی شکل میں گہرے گڑھوں کے اندر جمع کر رہا ہے۔
یہ تحقیق دراصل یہ جاننے کے لیے کی جا رہی تھی کہ چاند پر موجود پانی کا ماخذ کیا ہے، ٹیم کی قیادت یو اے ایف جیو فزیکل انسٹی ٹیوٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر گنتھر کلیٹچکا نے کی، تحقیق سے پتا چلا کہ پانی بنانے والے آیونز (ہائیڈروجن اور آکسیجن آئنز) جب زمین کے مقناطیسی کرہ کے ایک حصے (دُم) سے گزرتے ہیں، تو چاند کی اپنی کشش ثقل انھیں چاند کی جانب کھینچ لیتی ہے۔
واضح رہے کہ پلینیٹری سوسائٹی کی ویب سائٹ پر چاند کے پانی کے بارے میں ایک مضمون کے مطابق چاند پر بھیجے جانے والے مشنز نے پانی کی موجودگی کی تصدیق کی ہے، یہ پانی چاند کے قطبوں پر ان گڑھوں میں برف کی صورت میں موجود ہے جن پر سورج کی کرنیں نہیں پڑتیں۔
سانس دانوں کا ماننا ہے کہ اس میں دیگر مشتبہ عوامل بھی شامل ہوسکتے ہیں جن میں 3.5 بلین سال قبل ایسٹیرائیڈز کی بمباری، اور آکسیجن اور ہائیڈروجن آئن فراہم کرنے والی شمسی ہوا شامل ہیں۔
ٹیم کا اندازہ ہے کہ چاند پر 840 کیوبک میل سطح پر پرما فراسٹ یا زیر زمین مائع پانی موجود ہے، جو زمین کے ماحول سے نکل کر وہاں پہنچا ہے، اتنا پانی شمالی امریکا کی جھیل ہورون کو بھرنے کے لیے کافی ہے، جو کرہ ارض کی آٹھویں بڑی جھیل ہے۔
خیال رہے کہ دنیا بھر کے سائنس دان اس کوشش میں مصروف ہیں کہ کسی طرح چاند پر انسانی رہائش کا حل تلاش کیا جا سکے۔