تازہ ترین

پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ، براہ راست دیکھیں

چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آج چین...

دیامر: مسافر بس کھائی میں گرنے سے 20 مسافر جاں بحق، متعدد زخمی

دیامر: یشوکل داس میں مسافر بس موڑ کاٹتے ہوئے...

وزیراعظم نے گندم درآمد اسکینڈل پر سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی کو ہٹا دیا

گندم درآمد اسکینڈل پر وزیراعظم شہبازشریف نے ایکشن لیتے...

پی ٹی آئی نے الیکشن میں مبینہ بے قاعدگیوں پر وائٹ پیپر جاری کر دیا

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے...

محمد طفیل کا تذکرہ جن کی مساعی سے’’نقوش‘‘ ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوا

’’نقوش‘‘ وہ ادبی جریدہ تھا جس کا اجرا محمد طفیل نے مارچ 1948ء میں کیا اور کئی برس بعد اس کی ادارت بھی سنبھالی اور اس جریدے کے متعدد شاہکار نمبر نکالے۔‌ محمد طفیل ایک کام یاب رسالے کے مالک اور مدیر ہی نہیں تھے بلکہ انھوں نے مصنّف اور خاکہ نگار کی حیثیت سے بھی جہانِ ادب میں‌ پہچان بنائی۔ حکومتِ پاکستان نے محمد طفیل کو ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

ممتاز فکشن نگار انتظار حسین لکھتے ہیں: "مدیر کی حثییت سے طفیل مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ادبی رسالہ کو ادبی قارئین کے دائرے سے نکال کر ہر خاص و عام کی پسند کی چیز بنا دیا اور یہ یقیناً ادب کی بہت بڑی خدمت ہے۔”

محمد طفیل کے بارے میں‌ پروفیسر مرزا محمد منور لکھتے ہیں: "محمد طفیل صاحب نے تن تنہا جتنی اردو کی خدمت کی ہے شاید ہی کسی فردِ واحد کے زیرِ انتظام کسی ادارے نے کی ہو۔”

’’نقوش‘‘ کے مدیر محمد طفیل 5 جولائی 1986ء کو وفات پاگئے تھے۔ اداریہ نویسی کرتے ہوئے محمد طفیل ادبی تذکرے، مضامین اور خاکہ نگاری کی طرف متوجہ ہوئے اور علمی و ادبی شخصیات سے ان کی خط کتابت کا سلسلہ بھی شروع ہوا جو بہت اہمیت کے حامل ہیں، یہ نامے اور جوابی مکتوب اردو ادب میں ایک تاریخ اور سند کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے اپنے وقت کے بلند قامت اور نام وَر مصنّفین اور ادیبوں‌ کے خیالات اور حالات جاننے کا موقع ملتا ہے۔

محمد طفیل 14 اگست 1923ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے استاد اور نام وَر خطّاط تاج الدین زرّیں رقم سے خوش نویسی کی تربیت حاصل کی۔ 1944ء میں محمد طفیل نے ادارۂ فروغِ اردو کے نام سے ایک طباعتی ادارہ قائم کیا اور 1948ء میں ماہ نامہ نقوش کا اجرا کیا۔ یہ جریدہ لاہور سے شایع ہوتا تھا جس کے اوّلین مدیر احمد ندیم قاسمی تھے جب کہ بعد میں یہ ذمہ داری خود محمد طفیل نے سنبھال لی۔

ان کی ادارت میں نقوش کا کام یابی سے اشاعت کا سلسلہ جاری رہا اور یہ ہر لحاظ سے معیاری اور معاصر جرائد میں مقبول جریدہ ثابت ہوا۔ اس میں اپنے وقت کے بلند پایہ اور نام وَر شعرا اور نثّار کی تخلیقات شایع ہوتی تھیں اور ملک بھر میں‌ نقوش کے قارئین بڑی تعداد میں‌ موجود تھے۔

نقوش کے تحت غزل و افسانہ پر خصوصی شماروں کے علاوہ شخصیات نمبر، خطوط نمبر، آپ بیتی، طنز و مزاح نمبر شایع ہوئے جب کہ منٹو، میر، غالب، اقبال، انیس جیسی نابغہ روزگار شخصیات کی تخلیقات اور تذکروں پر مبنی شمارے اور مختلف ادبی موضوعات پر خصوصی اجرا شامل ہیں۔ یہ سلسلہ پاک و ہند میں پسند کیا گیا اور اس کی نظیر اس سے پہلے نہیں‌ ملتی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ محمد طفیل نے جب غالب نمبر کے لیے مرزا غالب ہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ اپنے جریدے نقوش کی زینت بنایا تو اردو دنیا میں تہلکہ مچ گیا اور بھارت میں‌ بھی یہ کہا گیا کہ اگر یہ مسودہ بھارت میں دریافت ہوا ہے تو پاکستان کیسے پہنچا اور کیسے پاکستان کے ایک مدیر نے اسے شائع بھی کر دیا۔

محمد طفیل نے خاکہ نگاری کے متعدد مجموعے صاحب، جناب، آپ، محترم، مکرّم، معظّم، محبّی اور مخدومی کے نام سے شائع کروائے۔ ان کی خود نوشت بعد از مرگ ناچیز کے عنوان سے شایع ہوئی اور رسالہ نقوش نے محمد طفیل نمبر جاری کیا۔ محمد طفیل میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

Comments

- Advertisement -