تازہ ترین

سولر بجلی پر فکسڈ ٹیکس کی خبریں، پاور ڈویژن کا بڑا بیان سامنے آ گیا

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے سولر بجلی پر فکسڈ...

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

دسمبر 1971: جب کراچی پر بم باری ہو رہی تھی!

ایک زمانے میں یہ دستور تھا کہ امرا و رؤسا عمارت تعمیر کراتے تو اس کی ’نیو‘ میں اپنی حیثیت اور مرتبے کے مطابق کوئی قیمتی چیز رکھ دیا کرتے تھے۔

نواب واجد علی شاہ اپنی ایک منہ چڑھی بیگم، معشوق محل سے آزردہ ہوئے، تو اس کی حویلی ڈھا کر ایک نئی عمارت تعمیر کرائی۔ معشوق محل ذات کی ڈومنی تھی۔ اس نسبت سے اس کی تذلیل و تضحیک کے لیے نیو میں طبلہ سارنگی رکھوا دیے۔ میں نے اس کتاب کی بنیاد اپنی ذات پر رکھی ہے۔ جس سے ایک مدت سے آزردہ خاطر ہوں کہ ”پیشہ سمجھے تھے جسے ہوگئی وہ ذات اپنی“ کم و بیش 20 سال پرانی یادوں اور باتوں کی پہلی قسط 1972ء میں مکمل ہوگئی تھی۔

یاد پڑتا ہے کہ اس کے دو باب دسمبر 1971ء میں موم بتی کی روشنی میں ان راتوں کو لکھے گئے، جب کراچی پر مسلسل بم باری ہو رہی تھی اور راکٹوں اور اک اک گنز کے گولوں نے آسمان پر آتشیں جال سا بُن رکھا تھا۔ ہماری تاریخ کا ایک خونچکاں باب رقم ہو رہا تھا۔ ہجومِ کار اور طبیعت کی بے لطفی نے تین سال تک نظرِ ثانی کی اجازت نہ دی۔ ستمبر 1975ء میں جب معدے سے خون آنے لگا اور ڈیڑھ مہینے تک نقل و حرکت بستر کے حدود اربعہ تک محدود ہوکر رہ گئی، تو بارے یک سو ہو کر زندگی کی نعمتوں کا شمار و شکر ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

مسوّدے پر نظرِ ثانی کا مرحلہ بھی لیٹے لیٹے طے ہو گیا۔ اپنی تحریر میں کاٹ چھانٹ کرنے اور حشو و زوائد نکالنے کا مسئلہ بڑھا ٹیڑھا ہوتا ہے۔ یہ تو ایسا ہی عمل ہے جیسے کوئی سرجن اپنا اپنڈکس آپ نکالنے کی کوشش کرے۔

(مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ”زر گزشت“ سے ماخوذ)

Comments

- Advertisement -