ہندوستان کی تاریخ میں رضیہ سلطانہ کا نام دہلی کا تخت سنبھالنے والی پہلی مسلم حکم راں کے طور پر محفوظ ہے اور اس کی دلیری اور شجاعت کے قصے بھی مشہور ہیں۔
رضیہ سلطانہ کا تعلق خاندانِ غلاماں سے تھا اور وہ اس خاندان کے ایک فرماں روا سلطان شمس الدین التمش کی بیٹی تھی۔ کہتے ہیں کہ سلطان التمش علم و ادب کا شیدائی اور فنون سے گہرا لگاوٴ رکھتا تھا۔ اس نے اپنی بیٹی کی تعلیم و تربیت پر بھی خاص توجہ دی اور اسے اس دور کے رواج کے مطابق فنِ حرب، سپاہ گری اور گھڑ سواری بھی سکھائی۔
کہتے ہیں سلطان نے اپنے تخت کے لیے بیٹوں پر رضیہ کو ترجیح دی لیکن امرا کی حمایت و مخالفت، سازشوں کے ساتھ جنگوں میں رضیہ سلطانہ کو تخت سے محروم ہونا پڑا اور پھر وہ وقت آیا جب ملک التونیہ کی مدد سے رضیہ نے دوبارہ تخت حاصل کرنا چاہا، مگر موت اس کا مقدر بنی۔ رضیہ کی موت کے حوالے سے بھی مختلف باتیں مشہور ہیں۔
کہتے ہیں رضیہ سلطانہ نے ملک التونیہ سے شادی کے بعد اسے دہلی کا اقتدار حاصل کرنے پر آمادہ کیا اور لشکر کے ساتھ نکلی، لیکن ایک مقام پر جنگ کے بعد انھیں جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ التونیہ اور رضیہ کافی گھنٹوں تک گھوڑے دوڑاتے ہوئے کتھل کے علاقہ میں پہنچے اور ایک جگہ سستانے کے لیے بیٹھے، بھوک سے ان کا برا حال تھا۔ وہاں سے ایک دیہاتی کا گزر ہوا تو انھوں نے اس سے کھانے پینے کے لیے کچھ مانگا، اس شخص نے رضیہ کے زیورات دیکھ لیے اور انھیں کھانے کو کچھ دینے کے بعد خاموشی سے جاکر اپنے ساتھیوں کو لے آیا اور انھوں نے ان دونوں کو قتل کر کے بیش قیمت زیورات اور مال لوٹ لیا۔ یوں 1240 اس کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔
کہتے ہیں بعد میں یہ بات کھلی تو رضیہ کے بھائی اس کی لاش دہلی لے گئے اور ترکمانی دروازے کے پاس بلبل خانے میں دفن کیا۔ یہاں دو قبریں دیکھی جاسکتی ہیں جن میں سے ایک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ رضیہ سلطانہ کی بہن کی قبر ہے۔
مشہور سیاح ابنِ بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامے میں رضیہ سلطانہ کے مقبرے کا ذکر کیا ہے اور اسے ایک زیارت گاہ کہا ہے جہاں دعا کے لیے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔