تازہ ترین

علم و فضل میں‌ یکتا ابن عبد البر القرطبی کا تذکرہ

اسلامی تاریخ کا اگر بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو آسمان علم و حکمت پر بے شمار درخشندہ ستارے جلوہ گر نظر آئیں گے جن کی ذات سے علم و ادب کے بے شمار سوتے پھوٹتے ہیں۔ انہی تابندہ ستاروں میں اندلس کے علّامہ عبد البر بھی شامل ہیں۔

نام و نسب
اسلامی دنیا کی اس عالم فاضل شخصیت کا نام یوسف، کنیت ابو عمرو، اور عرفیت ابن عبدُ البَر ہے۔ کتب میں‌ ان کا نام یوسف بن عبد اللہ بن محمد عبد البر بن عاصم النمری القرطبی لکھا ہے۔

تاریخ پیدائش
قرطبہ میں‌ آپ کی پیدائش 978ء کو ہوئی اور اس بارے میں‌ ابو الحسن طاہر بن مغفور المغافری سے منسوب ہے کہ انھوں نے کہا کہ مجھے ابو عمر و عبد البر نے اپنی تاریخِ پیدائش کے بارے میں بتایا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ بروز جمعہ اس وقت عالمِ رنگ و بُو سے وابستہ ہوئے جب جمعہ کا خطبہ ہو رہا تھا۔

خاندان
القرطبی نے خالصتاََ علمی و ادبی ماحول میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان علم و فضل میں‌ قرطبہ میں ممتاز تھا۔ ان کے والد محمد عبد اللہ بن محمد بن عبد البر قرطبہ کے فقہا و محدثین میں سے تھے۔ اس کنبے کا علم و ادب سے گہر ا تعلق تھا۔

حالاتِ زندگی
اسی ماحول میں‌ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے بمشکل تیرہ برس کی عمر کو پہنچے تھے کہ القرطبی کے والد وفات پاگئے۔ بڑے ذوق و جستجو کے ساتھ القرطبی حصولِ علم میں مگن رہے اور قرطبہ میں ہی اس وقت کے جید علماء سے درس لیا۔ ان علماء میں ابو القاسم خلف بن القاسم، عبد الوارث بن سفیان، عبد اللہ بن محمد بن عبد المومن و دیگر شامل ہیں۔ ان نابغۂ روزگار علمائے کرام کے علاوہ ابنِ خلکان نے چند اور حضرات کا بھی ذکر کیا ہے جن سے آپ نے تعلیم حاصل کی۔ قاضی ابو علی الحسین بن احمد بن حمد الغسانی الاندلسی الجیانی کہتے ہیں کہ ابن عبد البر اہلِ قرطبہ میں سے ہمارے شیخ تھے، آپ نے فقہ کا علم ابو عمر احمد بن عبد المالک بن ہاشم الفقیہ الاشبیلی سے حاصل کیا اور علوم حدیث ابو الولید ابن الفرضی الحافظ سے حاصل کیا۔

پانچویں صدی ہجری کی ابتدا میں قرطبہ سیاسی لحاظ سے خلفشار اور افرا تفری کا شکار تھا۔ اموی حکومت ختم ہو گئی تھی، ہر طرف فتنہ و فساد پھیلنے لگا اور قرطبہ کے بہت سے علماء و ادباء نے وہاں سے ہجرت کی تو علامہ ابن عبد البر جو اپنی علمی منزلت کی وجہ سے اندلس میں‌ مشہور ہو چکے تھے، قرطبہ سے نکل کر بطلیموس چلے گئے۔ وہاں بنو الافطس کی حکمرانی تھی۔ وہ بڑا علم دوست اور قدر دان شخص تھا۔ اس نے آپ کی بڑی عزت و توقیر کی اور آپ کو اپنی ریاست کے دو شہروں اشنوتہ اور شنتریں کا قاضی مقرر کر دیا۔ پھر آپ مشرقی اندلس چلے گئے۔ بلنسیہ اور دانیہ میں اقامت گزیں ہوئے۔ جہاں مجاہد حکمران تھا۔ اس نے بھی آپ کی بڑی تعظیم و تکریم کی۔ علامہ ابن عبد البر کا ایک بیٹا محمد عبد اللہ بن یوسف بہت بڑا ادیب و انشاء پرداز اور شاعر تھا اور اس کی فصاحت و بلاغت کی مثال دی جاتی تھی۔ اس کی زبان دانی اور علم و ادب کی وجہ سے مجاہد نے اسے اپنے ’’دواوین‘‘ میں ملازمت دی جو بعد میں‌ انتقال کر گیا تھا۔ علّامہ اپنے بیٹے کی وفات کے بعد دانیہ سے شاطبہ تشریف لے آئے اور بقیہ زندگی وہیں علمی سرگرمیوں میں مگن رہے۔

وفات
شاطبہ میں علّامہ ربیع الثانی 1071ء میں علّامہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ ان کا جنازہ ابو الحسن طاہر بن مغفوز المغافری نے پڑھایا۔

علمی خدمات
علامہ ابن عبد البر علوم و فنون میں یکتا خاص کر قرآن و حدیث، تفسیر و معانی، اسماء الرّجال، تاریخ اور فقہ و اصولِ فقہ میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ درس و تدریس اور قضاء و افتاء کے ساتھ ان کی صحبت سے بہت سے تشنگانِ علم نے فیض اٹھایا۔ دوسری طرف تصانیف و تالیفات کا ایک ضخیم ذخیرہ بھی ان کے علمی تبحر کی یادگار ہے۔

ابن عبد البر کا میلان شعر و سخن کی طرف بھی بہت زیادہ تھا۔ اگرچہ باقاعدہ آپ کا کلام تو دست یاب نہیں ہے مگر چند کتابوں‌ میں ان کے اشعار ملتے ہیں جن سے علّامہ کے ذوقِ لطیف اور اس فن میں‌ ان کی بلاغت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس بارے میں‌ ہمیں مشہور تاریخ نویس اور مسلمان اسکالرز کی کتب میں معلومات ملتی ہیں۔ بات کی جائے ابنِ خلکان کی تو وہ لکھتے ہیں کہ تصنیف و تالیف میں توفیق الہٰی اور تائید ایزدی علّامہ ابن عبد البر کے شاملِ حال تھی۔ علامہ ابنِ حزم کا بیان ہے کہ ان کی کتابیں مختلف حیثیتوں سے اہم اور بے مثال ہیں۔

Comments

- Advertisement -