اشتہار

فاروق ستار نے اسٹیبلشمنٹ سے درخواست کرکے ہمیں بلوایا اوراب ہمیں ہی قصور وار ٹہرا رہے ہیں، مصطفیٰ کمال

اشتہار

حیرت انگیز

کراچی: پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ فاروق ستار نے ہمیں اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے اتحاد کرنے کے لیے بلوایا جب ہم وہاں پہنچے تو فاروق ستار پہلے سے موجود تھے ۔

چیئرمین پاک سرزمین پارٹی مصطفیٰ کمال پاکستان ہاؤس میں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار کے الزامات پر ردعمل دینے کے لیے بلائی گئی ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

مصطفیٰ کمال نے صدر پی ایس پی انیس قائم خانی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چند فاروق ستار نے آدھا سچ بولا ہے چنانچہ پورا سچ بتانے اور حقائق کو من و عن عوام کے سامنے رکھنے کے لیے یہ پریس کانفرنس طلب کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فاروق ستار کی پریس کانفرنس کے بعد ایسا تاثر دیا گیا کہ جیسے پریس کانفرنس سے ایک رات پہلے فاروق ستار کو اغوا کیا گیا اور اگلے روز فاروق ستار کو پیش کر کے ذبردستی پریس کانفرنس کروائی گئی اور اس سارے کام میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہو۔

- Advertisement -

مزید پڑھیں: متحدہ اور پی ایس پی کا انتخابات ایک جماعت اور نشان سے لڑنے کا اعلان

انہوں نے کہا کہ ہاں یہ درست ہے کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ نے بلا کر فاروق ستار سے ملوایا لیکن یہ خود فاروق ستار کی درخواست پرکیا گیا تھا۔ جب ہم پہنچے تو فاروق ستار وہاں پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے، ’ایک دن پہلے نہیں بلایا گیا بلکہ 6، 8 مہینے پہلے سے ملاقاتیں جاری تھیں۔

انہوں نے کہا کہ فاروق ستار نے آدھا جھوٹ بولا ہے میں آج پورا سچ بتاتا ہوں۔ ’فاروق ستار اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے کہلواتے ہیں پاک سرزمین پارٹی ان میں ضم ہو جائے، فاروق ستار اور ان کے دوستوں کے بات برملا کہی کہ اپنی پارٹی بند کرتا ہوں لیکن ایم کیو ایم میں ضم نہیں ہوں گا۔ فاروق ستار کے دوستوں کو کہا ایم کیو ایم بانی متحدہ کی تھی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ فاروق ستار کے دوستوں نے کہاہم پی ایس پی بند نہیں کرنا چاہتے۔ ملاقات میں طے پایا کہ مشترکہ گراؤنڈ سے کسی اور چیز پر بات کرلی جائے، طے پایا تیسری جماعت بن جائے اور جدوجہد جاری رکھی جائے۔

مصطفیٰ کمال کہنا تھا کہ یہ سب فاروق ستار کی خواہش پر ہو رہا ہے ان کی بلوائی ہوئی ملاقاتوں میں ہو رہا ہے۔ فاروق ستار کے کہنے پر کہا جاتا تھا ذرا ہلکا بیان دیں۔ اے پی سیکی دعوت کے لیے بھی سفارش کروائی گئی۔ اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے کہا گیا کہ ہمارا استقبال انیس قائم خانی کریں۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے آپ دباؤ ڈلواتے ہیں اور ہمیں ان کا ایجنٹ بنا دیا، ’آپ نے ہمیں اسٹیبلشمنٹ کے پاس بلوایا تھا‘۔

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ بانی ایم کیو ایم نے 22 اگست 2016 کو خود پر خودکش حملہ کردیا۔ ’آپ لوگ بھی وہاں بیٹھے جی بھائی جی بھائی کر رہے تھے۔ بانی ایم کیو ایم کے حکم پر آپ لوگوں نے اے آر وائی نیوز پر حملہ کردیا، مصطفیٰ کمال پکڑا نہیں گیا تھا پھر بھی اس نے بانی ایم کیو ایم کے خلاف آواز لگائی۔ آپ تو پکڑے گئے تھے اس کے بعد بانی ایم کیو ایم کے خلاف بات کی‘۔

انہوں نے کہا کہ فاروق ستار نے 2 گواہ بنائے اور پریس کلب چلے گئے۔ 22 اگست کے اقدام کے بعد انیس قائم خانی سے پوری ایم کیو ایم نے رابطہ کیا تھا۔ غداری کے مقدمے میں جسے گرفتار کیا گیا 8 گھنٹے بعد پارٹی سربراہ بن کر نکلتا ہے۔’فاروق ستار کو گرفتار کیا گیا تواس وقت کے گورنر کا انیس قائم خانی کو فون آتا ہے، عشرت العباد نے کہا سب سے میری بات ہوگئی ہے فاروق ستار کو چھڑا رہا ہوں‘۔

مصطفیٰ کمال نے ایم کیو ایم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کے پاس اس وقت مہاجروں کا 100 فیصد مینڈیٹ ہے۔ ’42 ایم این ایز میں سے 36 تمہارے پاس ہیں۔ 100 فیصد مینڈیٹ کے باوجود کراچی میں کچرا کیوں ہے، کراچی میں لوگ خودکشی کیوں کر رہے ہیں، بجلی کیوں نہیں آتی۔ مینڈیٹ تمہارے پاس ہے تو مہاجروں کی خدمت کیوں نہیں کر رہے۔ ہمارے آنے کے بعد ان کا لاشوں کا کاروبار نہیں چل رہا تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ کیا میں صرف مہاجروں کی خدمت کروں، دیگر قوموں کی نہیں۔ فاروق ستار نے پارٹی میں آنے کے لیے والدہ کو ڈھال بنایا۔ بات الحاق، انضمام کی ہورہی تھی، نئے صوبے کی بات کردی۔ ’شہر کی گلیاں اور کچرا صاف نہیں ہو رہا، ایک نیا صوبہ بناؤ گے‘۔

یاد رہے کہ 8 نومبر کو دونوں جماعتوں نے سیاسی اتحاد کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ آنے والے وقت میں ایک نشان، ایک پارٹی اور ایک منشور کے تحت سیاسی عمل میں حصہ لیں گے اور انتخاب لڑیں گے۔

تاہم اس کے اگلے روز ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار ںے اپنے اوپر لگنے والے الزامات سے دلبرداشتہ ہو کر سیاست چھوڑنے کا فیصلہ کیا لیکن کارکنان کے اصرار اور والدہ کے کہنے پر ایک گھنٹے سے قبل ہی واپس لے لیا۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔ 

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں