اشتہار

این اے 240 میں انتخابی دنگل؛ حلقے کے مسائل اور امیدواروں کا اظہارِ خیال

اشتہار

حیرت انگیز

آٹھ فروری (جمعرات) کو ہونے والے عام انتخابات کیلیے الیکشن کمیشن کی تیاریاں حتمی مراحل میں ہیں جس میں این اے 240 سے تعلق رکھنے والے 3 لاکھ 85 ہزار 971 شہری (رجسٹرڈ ووٹرز) اپنا حق رائے دہی کا درست استعمال کرتے ہوئے ملکی مستقبل کے تعین میں اہم حصہ ڈالیں گے۔

این اے 240 (کراچی ساؤتھ دوم) کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک تو یہ گنجان آبادی والا علاقہ ہے جس میں تقریباً 8 لاکھ شہری بستے ہیں، دوسرا اس کے چاروں اطراف ہر وقت تجارتی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ حلقے میں تاجر، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور اور نوکری پیشہ افراد کی بڑی تعداد مقیم ہے۔

قومی اسمبلی کا یہ حلقہ جن علاقوں پر مشتمل ہے اُن کے نام یہ ہیں: کھارادر، بولٹن مارکیٹ، رامسوامی، رنچھوڑ لائن، حاجی کیمپ، جوبلی مارکیٹ، گارڈن ویسٹ، عثمان آباد، دھوبی گھاٹ، حسن لشکری، غازی نگر، جناح آباد، گھاس منڈی، بھیم پورہ، ناناکواڑہ، سنگولین، نوالین، بکرا پیڑی، ڈینسو ہال اور پان منڈی۔

- Advertisement -

2018 کے عام انتخابات میں یہاں سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما ڈاکٹر عارف علوی 91 ہزار 20 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے، تاہم ان کے صدر مملکت بننے کے بعد اس نشست پر ضمنی الیکشن کا انعقاد کروایا گیا تھا جس میں پی ٹی آئی کے آفتاب حسین صدیقی 32 ہزار 326 ووٹ حاصل کیے تھے۔

حلقے کے مسائل:

این اے 240 میں پانی کی کمی، بجلی کی لوڈشیڈنگ، گیس کا بحران، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، سیوریج کا ناقص نظام، غیر قانونی تعمیرات، تجاوزات، اسٹریٹ کرائم، چوری کی وارداتوں میں روز بروز ہوتا اضافہ، منشیات کی کھلے عام خرید و فروخت اور نوجوانوں میں اس کا استعمال اور بھتہ خوری جیسے مسائل ہیں۔

یہاں سے منتخب نمائندے صرف بنیادی مسائل حل کر دیں تو شہری سُکھ کا سانس لے کر اپنی کاروباری سرگرمیاں مزید بہتر انداز میں جاری رکھ سکیں گے۔

این اے 240 سے یہ امیدوار حصہ لے رہے ہیں:

سلیم مانڈوی والا (پاکستان پیپلز پارٹی)

ارشد عبداللہ وہرا (متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان)

سید عبدالرشید (جماعت اسلامی پاکستان)

رمضان (پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار)

سید زمان علی جعفری (تحریک لبیک پاکستان)

سکینہ انور (مسلم لیگ نون)

حلقے میں کس کا پلڑا بھاری:

ویکیپیڈیا پر دستیاب معلومات کے مطابق 10 اکتوبر 2002 کو ہونے والے عام انتخابات میں یہاں سے متحدہ قومی موومنٹ کے ٹکٹ پر مرحوم ڈاکٹر عامر لیاقت حسین 30 ہزار 458 ووٹ لے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

18 فروری 2008 کے جنرل الیکشن میں متحدہ قومی موومنٹ نے ڈاکٹر فاروق ستار کو میدان میں اتارا تھا جو 1 لاکھ 3 ہزار 846 ووٹ لے کر کامیا ہوئے تھے۔

11 مئی 2013 کے عام انتخابات میں بھی ڈاکٹر فاروق ستار اس علاقے سے 1 لاکھ 9 ہزار 952 ووٹ لے کر رکن قومی اسمبلی بنے تھے۔ لیکن 2018 کے عام انتخابات اور ضمنی الیکشن میں یہاں سے پاکستان تحریک انصاف نے میدان مارا تھا۔

سید عبدالرشید:

سید عبدالرشید نے این اے 240 سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت سے بڑا مسئلہ سوئی گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کا ہے، ساتھ میں منیشات کا بہت بڑا مافیا سرگرم ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل بُری طرح برباد ہو رہی ہے، لوکل گورنمنٹ چونکہ نااہل لوگوں کے ہاتھ میں ہے اس لیے اس کی سروسز درست کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد میری ترجیحات یہی ہوں گی کہ میں اپنے ووٹرز اور حلقے کے رہائشیوں کی نمائندگی کروں اور مظلوموں کی آواز بنوں، اسمبلی میں جا کر ایسی قانون سازی کروں کہ جس سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری آ سکے۔

رہنما جماعت اسلامی نے مزید کہا کہ حلقے کے بینادی مسائل کا پہلا حل درست نمائندگی ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر مسائل تو خود بخود حل ہو جائیں گے، میں پانچ سال سندھ اسمبلی کا رکن رہا ہوں اس دوران لیاری کی ترقی کا سلسلہ شروع ہوا، میں سمجھتا ہوں جو شخص اپوزیشن میں بیٹھ کر کام کر سکتا ہے تو حکومت اور اختیارات کے ساتھ بہت بہتری لائی جا سکتی ہے، امید ہے منتخب ہونے کے بعد وہ کارکردگی دکھاؤں گا جو لوگ سال ہا سال نہیں دکھا سکے۔

سید زمان علی جعفری:

سید زمان علی جعفری کا کہنا ہے کہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ میسر نہیں جس کی وجہ سے مؤقف بیان کرنے کا موقع نہیں ملتا، پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں ہمارے کئی سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کیے گئے، 1970 میں علامہ شاہ احمد نورانی یہاں سے کامیاب ہوئے تھے جبکہ 1985 میں میرے سسر و استاد علامہ سید شاہ تراب الحق قادری یہاں سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے، یہ حلقہ ہمیشہ سے اسلام پسند قوتوں کا مرکز رہا ہے، اگرچہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ میسر نہیں لیکن پھر بھی ہماری فتح یقینی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پچھلے الیکشن میں پی ٹی آئی امیدوار کی صورت میں منظم دھاندلی کا مقابلہ کیا تھا، لیکن اس بار ہم مخالفین کو دھاندلی کا موقع نہیں دیں گے، دھاندلی سے متعلق کوئی ادارہ یا شخص غلط فہمی میں نہ رہے اس بار دوٹوک پیغام یہی ہے کہ دھاندلی برداشت نہیں کی جائے گی۔

حلقے کے مسائل پر رہنما ٹی ایل پی نے کہا کہ موجودہ صدر مملکت عارف علوی اس حلقے سے الیکشن لڑ کر اسمبلی پہنچے لیکن افسوس کہ انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، ہم 8 فروری کو منتخب ہونے کے بعد یہاں کے مسائل حل کریں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایماندار قیادت کے بغیر پاکستان میں شریعت کا نفاذ ممکن ہی نہیں، عوام 8 فروری ایماندار قیادت کا انتخاب کریں۔

سکینہ انور:

سکینہ انور لیول پلیئنگ فیلڈ سے مطمئن نظر آئیں۔ انہوں نے کہا کہ حلقے میں میرا ووٹ بینک زیادہ ہے کیونکہ میں یہاں کی رہائشی ہوں اور 15 سال سے طبی خدمات انجام دے رہی ہوں، ہر حلقے میں پانی، بجلی، گیس، صحت اور تعلیم کے مسائل ہیں، صحت کیلیے میں اپنے فلاحی ادارے کے ذریعے کام کر رہی ہوں جبکہ تعلیم کیلیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گئے، نواز شریف وزیر اعظم بنیں گے تو گیس، بجلی، پانی اور ہر چیز میسر ہوگی، جیسے انہوں نے لاہور کو خوبصورت شہر بنایا ویسے ہی وہ کراچی کو بھی سنواریں گے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف سے بات کی ہے کہ حلقے میں صحت کارڈ تقسیم کریں گے جس کے ذریعے ایک خاندان مفت علاج کروا سکے گا، یہاں کے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا معیار اچھا نہیں، سرکاری اسکولوں کو نجی تعلیمی اداروں کے برابر لائیں گے۔

سکینہ انور نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اپنا ووٹ ضائع نہ کریں بلکہ ایسے شخص کو دیں جو ان کے درمیان رہتا ہو۔ ان کے مطابق جو امیدوار لوگوں کے درمیان بستا ہوگا اسے اپنے ووٹرز کے مسائل کا بخوبی اندازہ ہوگا اور وہ انہیں حل کرنے کی کوشش بھی کرے گا۔

سلیم مانڈوی والا:

حلقے میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں کا آنا ہی میرے لیے کافی ہے، ووٹ تو ہر جگہ مانگنا ہی ہوتا ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ مجھے ووٹ ملیں یا نہ ملیں جو میں نے وعدے کیے ہیں ان کو پورا کروں گا۔

اپنے مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ لوگ بس عہدوں کیلیے آتے ہیں نہ کے لوگوں کیلیے، ہم میں اور اُن میں یہی فرق ہے کہ ہم آپ کیلیے آئے ہیں، میں کسی عہدے کیلیے الیکشن نہیں لڑ رہا عہدے تو اللہ نے مجھے بہت دیے، دراصل میں آپ لوگوں کیلیے اب کچھ کرنا چاہتا ہوں اور اس میں آپ لوگوں نے میری مدد کرنی ہے کہ میں اپنے وعدے پورے کر سکوں، حلقے کے تمام مسائل حل ہوں گے۔

ارشد وہرا:

حالیہ انٹرویو میں ارشد وہرا کا کہنا تھا کہ کراچی کے شہریوں کو بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب بھی شہر میں کام ہوا اسے ایم کیو ایم نے کروایا، ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی پر 15 سالوں تک اعتماد کر کے دیکھ لیا لیکن اس نے صوبے کو غلام بنا کر رکھا ہے، پیپلز پارٹی نے شہر کو کیا دیا؟

ارشد وہرا نے کہا کہ لوگوں کے پاس ایم کیو ایم کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے، چھوٹی سیاسی جماعتیں الیکشن میں ایک دو نشستیں لے کر کچھ نہیں کر پاتیں، پیپلز پارٹی کے بعد ایم کیو ایم سندھ کی بڑی سیاسی جماعت ہے، لوگوں کو ایم کیو ایم پر بھروسہ کرنا پڑے گا، اور اس کے امیدواروں کو کامیاب کروانا ہوگا تاکہ وہ لوگوں کے کام کر سکیں۔

Comments

اہم ترین

یاسین صدیق
یاسین صدیق
لکھاری اے آر وائی نیوز ڈیجیٹل سے منسلک صحافی ہیں۔

مزید خبریں