انتخابی حلقہ NA-245 کراچی غربی-II قومی اسمبلی کا وہ حلقہ ہے جس میں کراچی ضلع غربی کا اورنگی ٹاؤن ایریا شامل ہے۔ بنیادی طور پر یہ سیٹ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان جیتتی آ رہی تھی لیکن 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار عطا اللہ نیازی نے یہ حلقہ اپنے نام کیا جو اس بار آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہیں لیکن عوامی سطح پر وہ پی ٹی آئی ہی کے امیدوار ہیں۔ اس حلقے سے پچھلے جنرل الیکشن میں حافظ نعیم اور شاہی سید جیسے امیدوار بھی کھڑے تھے۔
قومی اسمبلی کی 22 نشستوں میں سے اس نشست پر الیکشن 2024 میں اس بار امیدواروں کی تعداد 23 ہے لیکن صرف 5 امیدواروں میں کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کے مطابق اس حلقے کے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 75 ہزار 285 ہے، جن میں سے مرد ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 20 ہزار 253 ہے جب کہ خواتین ووٹرز کی تعداد 1 لاکھ 55 ہزار 32 ہے۔
حلقہ بندی کا گنجلک جال
این اے 245 پر ایک نگاہ ڈال کر ایسا لگتا ہے جیسے کافی سوچ بچار کے بعد یہ حلقہ ترتیب دیا گیا ہو، یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ کیا واقعی خاص پارٹی کو سہولت فراہم کرنے کے لیے یہ حلقہ بندی کی گئی ہے، تاہم جس طرح سے دور دور اور ایک دوسرے سے نہایت مختلف اور متنوع آبادیوں کو اس میں شامل کیا گیا ہے، اسے دیکھ کر امیدواروں کو فتح حاصل کرنے کے لیے سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کو نہایت متنوع آبادیوں سے ووٹ حاصل کرنا ہوگا، لیکن ہر آبادی ایک خاص سیاسی رجحان رکھتی ہے، اور خاص سیاسی پارٹی کی طرف مائل ہے، جس کی وجہ سے سب ہی امیدواروں کو ایک واضح اکثریت کے حصول میں خاصی مشکل پیش آئے گی۔
یہ انتخابی حلقہ قصبہ، اسلامیہ اور پیر آباد جیسے مکس کالونیوں سے شروع ہوتا ہے جہاں پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا، لیکن جمعیت علماے اسلام وہ پارٹی ہے جس کی اس حلقے میں نہ صرف مسلم لیگ ن بلکہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے بھی حمایت کی ہے، اور اے این پی نے تو اپنے مضبوط اور مستقل امیدوار امیر نواب کو اس کے مقابل بٹھا دیا ہے، تو جے یو آئی ان علاقوں میں نتیجے پر واضح طور پر اثر انداز ہوگی۔
گبول کالونی، بلوچ پاڑا، لاسی محلہ بلوچ گوٹھ، اسی طرح کی دیگر گوٹھ، اور خود منگھوپیر کا وسیع علاقہ پاکستان پیپلز پارٹی کا علاقہ ہے، جس میں گزشتہ انتخابات میں پی پی کا امیدوار جیتا تھا، تاہم جماعت اسلامی کا امیدوار محض 400 ووٹوں سے پیچھے رہ گیا تھا۔ اسی طرح بخاری کالونی، اورنگی کے کئی سیکٹرز، داتا نگر، علی گڑھ کالونی، مجاہد آباد، صابری چوک، بنگلا بازار اور اتحاد ٹاؤن وہ علاقے ہیں جہاں ایم کیو ایم کو لیڈ حاصل ہوتی ہے لیکن جماعت اسلامی کا امیدوار بھی اس کے ٹکر میں موجود ہوگا۔
اس طرح یہ انتخابی حلقہ متنوع آبادی پر تو محیط ہے، تاہم اس میں زیادہ تر اردو بولنے والے اور پختون پس منظر والی آبادی کی اکثریت ہے، پختون آبادیوں جیسا کہ فرنٹیئر کالونی، قصبہ کالونی، بنارس کالونی، اور پیر آباد کا ووٹ ماضی میں ہمیشہ جماعت اسلامی کی طرف رہا، تاہم اس کے مقابل اے این پی ہمیشہ ایک مضبوط امیدوار رہا، لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے بعد سے اس علاقے کے پختونوں کا ووٹ بری طرح پی ٹی آئی کی طرف منتقل ہوا ہے، لیکن پی ٹی آئی کا امیدوار عطااللہ آزاد امیدوار کے طور پر اس علاقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں، اس کے باوجود ایک بڑا ووٹ اس بار بھی ان کی طرف جائے گا۔
NA-245 پارٹی اور امیدوار
اس حلقے میں کُل 256 پولنگ اسٹیشن اور 822 پولنگ بوتھ ہوں گے، اور میدان میں مجموعی طور پر 23 امیدوار ہیں، جن میں سے 11 آزاد حیثیت سے کھڑے ہوئے ہیں، جب کہ 12 امیدوار ایسے ہیں جو یا تو کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں یا سماجی اور برادری کی سطح پر کسی بینر تلے کھڑے ہوئے ہیں، جیسا کہ سلیمان خیل قبائل موومنٹ یا پاکستان عام آدمی موومنٹ۔
تاہم اس انتخابی حلقے کے قابل ذکر امیدواروں میں امین اللہ (جمعیت علمائے اسلام پاکستان)، سید حفیظ الدین (ایم کیو ایم پاکستان)، صدیق اکبر (پاکستان پیپلز پارٹی)، عطا اللہ (پی ٹی آئی آزاد)، محمد اسحاق خان (جماعت اسلامی) شامل ہیں۔ اے این پی کی جانب سے سابق صوبائی وزیر محنت امیر نواب انتخاب لڑ رہے تھے تاہم اب وہ جے یو آئی کے امین اللہ کے حق میں دست بردار ہو چکے ہیں، اسی طرح مسلم لیگ ن نے بھی امین اللہ کی حمایت کی ہے۔
عطا اللہ نیازی
عطا اللہ نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 2018 میں اس نشست پر ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور ایم ایم اے کے مقابلے میں نمایاں برتری کے ساتھ فتح حاصل کی تھی۔ لیکن اس بار نہ وہ ’بلے‘ کے انتخابی نشان پر لڑ رہے ہیں نہ ہی انھیں ماضی کی طرح کھل کر انتخابی مہم چلانے کی آزادی حاصل ہے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد حیثیت میں بہت مشکل حالات میں یہ انتخاب لڑ رہے ہیں، ان میں سے عطا اللہ بھی ہیں، جن کا انتخابی نشان ’ریکٹ‘ ہے اور جنھوں نے پوسٹرز کے علاوہ کوئی انتخابی مہم نہیں چلائی۔ ان ہی پوسٹرز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی جانب سے کھڑے ہیں۔
عطا اللہ پی ٹی آئی کے وہ امیدوار ہیں جنھوں نے جون 2022 میں دھکمی دی تھی کہ اگر پی ٹی آئی چیئرمین کو کچھ ہوا تو وہ حکمرانوں پر خود کش حملہ کر دیں گے، انھوں نے ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ان کے جیسے ہزاروں خودکش بمبار ہیں جو خود کو اڑانے کے لیے تیار ہیں۔
سید حفیظ الدین
سید حفیظ الدین پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کراچی ڈویژن کے چیف آرگنائزر تھے، لیکن پھر انھوں نے 14 فروری 2012 کو پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ 2013 کے عام انتخابات میں حلقہ PS-93 (کراچی-V) سے وہ پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر سندھ کی صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ لیکن پھر انھوں نے پاکستان سرزمین پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور 2018 کے عام انتخابات میں حلقہ PS-114 (کراچی ویسٹ-III) سے الیکشن ہار گئے۔ اب وہ ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں۔
اس نشست پر حفیظ الدین کے جیتنے کے امکانات اس لیے روشن ہیں کیوں کہ یہی حلقہ ہے جس سے 2002، 2008 اور 2013 میں متحدہ قومی موومنٹ نے قومی نشست جیتی تھی۔ تاہم ان کے لیے موجودہ حلقہ بندی اور پی ٹی آئی کی بدستور موجود مقبولیت کے آگے آسانی سے نشست جیتنا ممکن نہیں ہوگا۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی بھی اس حلقے سے بڑا ووٹ حاصل کرے گی اور پھر ایم کیو ایم کے ووٹ والے علاقوں میں جماعت اسلامی کی جانب سے انھیں سخت مقابلے کا سامنا ہوگا۔
صدیق اکبر
سندھ میں پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کے دوران ہی موجودہ انتخابی حلقے بنائے گئے ہیں، این اے دو سو پینتالیس میں نہ صرف منگھوپیر کے علاقے میں پی پی کا ووٹ ہے، اور یہاں سے گزشتہ انتخابات میں پی پی کے امیدوار نے جماعت اسلامی کے امیدوار کو صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے شکست دی تھی، بلکہ پختون آبادی میں بھی پیپلز پارٹی کا ایک قابل ذکر ووٹ موجود ہے۔ اس وقت عوامی سطح پر جن دو بڑے امیدواروں کی جیت کا تاثر پایا جاتا ہے، ان میں ایم کیو ایم کے امیدوار کے بعد دوسرا نمبر صدیق اکبر ہی کا ہے۔ وہ یہ نشست جیتنے کے لیے پوری طرح پر امید ہیں، اور اس امید کی وجہ پی ٹی آئی کی میدان میں ’کمزور موجودگی‘ ہے۔
امین اللہ
این اے دو سو پینتالیس کے انتخابی حلقے میں جمعیت علمائے اسلام پاکستان کا امیدوار بھی اپنی اہمیت رکھتا ہے، کیوں کہ یہ وہ حلقہ ہے جہاں ’مذہبی ووٹ‘ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ کچھ علاقوں میں جماعت اسلامی تو کچھ میں جے یو آئی کو بڑی حمایت حاصل ہے۔ 2018 کے انتخابات میں یہاں سے ایم ایم اے کا امیدوار چوتھے نمبر پر آیا تھا، لیکن اس کی بنیادی وجہ پی ٹی آئی کا میدان میں داخل ہونا تھا، پختونوں اور مذہبی ذہن کا اکثر ووٹ ’بلے‘ کا نشان لے گیا تھا، جو کہ اس بار اس قوت کے ساتھ میدان میں موجود نہیں ہے۔
اس کے علاوہ جے یو آئی کے امیدوار حاجی امین اللہ کو اے این پی اور مسلم لیگ ن کی بھی حمایت حاصل ہو گئی ہے، جس سے انھیں اے این پی کا یہاں کا قومیت پسند ووٹ بھی حاصل ہو جائے گا۔ اس حلقے میں ن لیگی ووٹ کبھی بھی ایسا نہیں رہا جو بلدیاتی انتخابات میں بھی اپنے امیدوار کو فتح دلا سکے، تاہم ایک تعداد تو ضرور ایسی ہے جو کسی کے پلڑے کے وزن کو بڑھا سکتی ہے۔ امین کا انتخابی نشان ’کتاب‘ ہے، جسے یہاں ہمیشہ مقدس کتاب کے تناظر میں پیش کر کے عوام سے ووٹ لیا گیا۔ تاہم اسی حلقے سے تحریک لبیک پاکستان کا امیدوار وزیر احمد نورانی بھی الیکشن لڑ رہے ہیں، اور حیرت کی بات ہے کہ یہاں سے ماضی میں ٹی ایل پی نے لوگوں کی توقع کے برعکس اچھا ووٹ نکالا ہے، تو جے یو آئی کا کافی سارا ووٹ ٹی ایل پی کے سمت بھی جا سکتا ہے، جس سے مقابلے میں ان کی مجموعی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔
محمد اسحاق خان
اس حلقے کے چند علاقوں میں ایک عرصے سے جماعت اسلامی کا مضبوط ووٹ موجود ہے، جس سے اسحاق خان بلدیاتی انتخابات میں ہمیشہ مستفید ہوئے، اور وہ پختون آبادی میں جماعت اسلامی کراچی کا برسوں سے نمائندہ چہرہ رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں اے این پی کو تسلسل سے شکست دینے والے اسحاق خان کی انتخابی مقبولیت اس وقت گہنا گئی جب علاقے میں ان کے خلاف پارٹی کے اندر ہی اختلافی آوازیں اٹھنے لگیں، اور ان کو ہٹانے کے لیے باقاعدہ گروپ بندی بھی ہوئی۔ چناں چہ جب پہلی بار مقامی سطح پر انھیں کونسلر (ناظم) کے انتخابات میں شکست ہوئی تو انھوں نے پھر صوبائی نشست کی طرف دیکھنا شروع کیا اور 2013 میں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر انھوں نے صوبائی سیٹ کے لیے الیکشن ہارا۔ اب جماعت اسلامی نے اس علاقے سے اسحاق خان کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا ہے، جس کی صورت حال یہ ہے کہ نہ صرف ووٹرز بہت منتشر ہیں بلکہ خود جماعت اسلامی کے اپنے ووٹرز کی ایک تعداد انھیں ووٹ کرنے سے گریزاں ہے۔ چناں چہ اس پس منظر میں وہ اس انتخابی حلقے کے جماعت اسلامی کی جانب سے سب سے کمزور امیدوار ہیں۔ تاہم پختون آبادی اور ایم کیو ایم کے ووٹ والے علاقوں سے جماعت اسلامی کے نام پر انھیں اتنا ووٹ مل سکتا ہے کہ وہ چوتھے نمبر پر آ سکیں۔