تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

سعادت علی خاں کے دربار کا آنکھوں دیکھا حال

نواب سعادت علی خاں قبل طلوعِ آفتاب کے دربار سواری کا فرماتے تھے، عرب اور جنگل کے تال میل سے خانہ زاد گھوڑے تھے۔ محل سے بوچہ پر سوار ہوکر برآمد ہوئے اور گھوڑے پر سوار ہوئے۔ اس وقت آپ لباس انگریزی، ولایتی ڈاب زیرِ کمر کیے ہوئے اور سیاہ مغلی ٹوپے دیے ہوتے تھے۔

پہلے سلام مرشد زادوں کا ہوتا تھا، اس کے بعد امرائے خاص کا۔ دو گھڑی میں ہوا خوری سے فراغت کرکے ہاتھی پر مع جلوس سوار ہوتے تھے۔ سواری مع جلوس مع ڈنکا و نشان ہوتی تھی۔ امرائے دولت ہاتھیوں پر سوار ہمراہ ہوتے تھے۔

خاص بردار چنور لیے ہوئے، چوب دار سواری کے داہنے بائیں ساتھ ہوتے تھے۔ مرزا کریم بیگ، محمد غلامی سوار انگریزی پوشاک میں آگے آگے ہوتے تھے۔ بیس سوار اور بیس پیدل روزانہ اہتمام سواری کرتے تھے اور کُل اہتمام نواب انتظامُ الدّولہ مظفر علی خاں کے سپرد تھا۔ نواب اشرفُ الدّولہ رمضان علی خاں، مرزا اشرف علی بھی ہمراہ ہوتے تھے۔

روزانہ پہرہ چوکی پر بائیس سوار آدمی مختلف فرقے کے ملازم تھے، ان میں دو سوار بھی تھے۔

دربار سواری کی بھی شان تھی۔ امرا درِ دولت سے رخصت ہوجاتے تھے۔ نو بجے صبح کو چائے پانی ہوتا تھا۔ کرسی نشین امرا، مقربانِ خاص، صمصام الدولہ مرزا ہجّو، مرزا محمد تقی خاں ہوس پہلو میں، مکلوڈ صاحب، ڈاکٹر لا صاحب خاص کرسی کی پشت پر بیٹھتے تھے۔ میر انشاء اللہ خاں، میر ابوالقاسم خاں، سراج الدّولہ، معززین، خواجہ سرا باریابِ سلام ہوتے تھے۔

سلام کا قاعدہ یہ تھا کہ مِردھا پہلے عرض خدمت کرتا تھا۔ پھر عرض بیگی اپنے سامنے پیش کرکے ادب قاعدے سے سلام کراتا تھا۔ اس میں بہت دیر موقع محل دیکھنے میں ہوجاتی تھی۔ ایک دربار وقت خاصے کے ہوتا تھا، جس میں مقربانِ خاص، اردلی و نواب جلال الدّولہ، مہدی علی خاں، رُکن الدّولہ، نواب محمد حسن خاں شریکِ خاصہ ہوتے تھے۔ اس کے بعد حضور محل میں تشریف لے جاتے تھے۔

بارہ بجے برآمد ہوتے، کچہری فرماتے تھے۔ کاغذات ملاحظہ ہوتے تھے۔ نواب نصیر الدّولہ تمام رپورٹیں ایک بند لفافے میں رکھ کر پیش کرتے تھے۔ نواب شمس الدّولہ بھی کاغذات بند لفافے میں پیش کرتے تھے اور آپ علاحدہ کمرے میں حاضر رہتے تھے۔ اِسی طرح نواب منتظمُ الدّولہ مہدی علی خاں، وزیر راجا دیا کرشن رائے رتن چند صاحب، اخبار رائے رام اخبار نویس، خفیہ منشی رونق علی، منشی دانش علی اپنے اپنے لفافے میز پر رکھ کر علاحدہ کمرے میں بیٹھتے تھے۔ استفسار کے لیے بلائے جاتے تھے۔

جنابِ عالی لفافے ملاحظہ فرماکر ضروری کاغذات پر دستخط فرماتے تھے اور جو ناقابلِ داخلِ دفتر ہوتے تھے وہ طشتِ آب میں ڈال دیے جاتے تھے، اِن کا ایک ایک حرف دھو ڈالا جاتا تھا۔ جس کاغذ پر مہرِ خاص کرنا ہوتی تھی، ظفر الدّولہ سامنے حضور کے مہر کرتے تھے۔ جو کاغذ باقی رہ جاتے تھے، رات کو ملاحظہ فرماتے تھے۔ پرچہ اخبار ہر وقت گزر سکتا تھا۔ بعد دستخط تمام کاغذ ہر دفتر میں بھجوادیے جاتے تھے۔ اُسی روز تمام احکام جاری ہوتے تھے۔

وقت شام دو اسپہ گاڑی پر سوار ہوکر ہوا خوری کو نکلتے تھے۔ جلوس سواری میں راجا بختاور سنگھ کا رسالہ تُرک سواران ہمراہ ہوتا تھا۔ کبھی تامدان پر تشریف فرما ہوتے تھے۔ اکثر گنج میں جاکر نرخ غلّہ کا دریافت کرتے تھے کہ رعایا کو گرانیِ غلّہ سے تکلیف نہ ہو۔ بقّال اس خوف سے اناج مہنگا نہیں کرسکتے تھے۔ اُس وقت دو پیسے سیر آٹا بکتا تھا۔

(خواجہ عبدالرؤوف عشرتؔ لکھنوی کے مضمون لکھنؤ کا عہد شاہی سے لیا گیا)

Comments

- Advertisement -