پانی وہ نعمت جس کے بغیر زندگی کا تصور نا ممکن ہے جب کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعتی سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے دنیا میں پانی کی کمی کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے جس کے لیے سائنس دانوں نے نئی منصوبہ بندی شروع کردی ہے جس کے تحت سمندر کے پانی کو استعمال کے قابل بنایا جا رہا ہے۔
سمندر کے پانی کو استعمال کے قابل بنانے کے لیے کئی طریقے پہلے سے ہی استعمال کیے جا رہے ہیں جن میں سے ایک گریفین آکسائڈ بھی ہے جس کی مدد سے سمندر کے پانی سے نمک کو نکال کر اسے پینے کے قابل بنایا جا سکتا ہے تاہم یہ طریقہ قدرے مہنگا ثابت ہو رہا ہے اس لیے قبولِ سند عام نہیں مل سکی ہے۔
ایک تحقیقی جریدے کے مطابق سائنس دان ڈاکٹر راہل نائر کی قیادت میں یونیورسٹی آف مانچسٹر کے سائنسدانوں کی ٹیم نے گریفین آکسائڈ سے کھارے پانی کو پینے لائق بنانا کا آسان اور سستا طریقہ ایجاد کیا ہے جس کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ یہ ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر استعمال ہو سکے گی۔
ڈاکٹر نائر نے بین الاقوامی میڈیا سے گفتگو کے دوران بتایا کہ اس طریقے میں گریفين آکسائڈ کو لیب میں عمل تکسید کے ذریعے بہ آسانی تیار کیا جا سکتا ہے اور کسی جال یا چھلنی میں چھڑک اس سے سمندر کے پانی کو گذارا جائے گا جس کے دوران چھلنی میں موجود گریفین آکسائڈ پانی میں سے نمک کو علیحدہ کر لے گی۔
واضح رہے اقوام متحدہ ایک سروے کے مطابق 2025 تک دنیا کی 14 فیصد آبادی کو پانی کے بحران کا سامنا ہوگااور پانی کی اتنی کمی پیدا ہوجائے گی کہ آئندہ ہونے والی جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوا کریں گی۔
یاد رہے کہ سمندر کے کھارے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لیے جو ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے اس میں پولیمر فلٹر استعمال کیا جاتا ہے جو مہنگا بھی پڑتا ہے اور بڑے پیمانے اس کا استعمال قریبآ نا ممکن ہے اور دنیا میں پانی صاف کرنے کی موجودہ ٹیکنالوجی پولیمر فلٹر پر مبنی ہے۔