محکمہ پولیس کی جانب سے تمام تر کوششوں اور اقدامات کے باوجود سال نو پر فائرنگ کے واقعات نہ رک سکے، اور کراچی شہر میں ایسے متعدد واقعات رونما ہوئے جو قانون کی خلاف ورزی پر بھی مبنی تھے اور ان کے نتیجے میں کئی شہری زخمی ہو کر اسپتال پہنچ گئے۔
اس سال پولیس کی جانب سے ہوائی فائرنگ کے خلاف بڑے پیمانے پر نہ صرف مہم چلائی گئی بلکہ نچلی سطح تک اقدامات بھی دیکھے گئے، ایڈیشنل آئی جی کراچی خود رات گئے تک مانیٹرنگ کرتے رہے، تمام ڈی آئی جیز، ایس ایس پیز، ایس پیز، ایس ڈی پی اوز اور ایس ایچ اوز اپنی حدود میں پٹرولنگ کرتے رہے۔
ڈی جی رینجرز سندھ کی جانب سے بھی اسٹیڈیم روڈ سے سی ویو تک کا دورہ کیا گیا، لیکن رات 12 بجتے ہی سخت اقدامات کے باوجود شہر کے بیش تر علاقے ہوائی فائرنگ سے گونج اٹھے، جس کے بعد رات گئے تک نامعلوم سمت سے گولیاں لگنے کے واقعات میں چار خواتین، تین بچے اور دو بچیوں سمیت 32 افراد زخمی ہوئے، جنھیں کراچی کے عباسی شہید، جناح اور سول اسپتال منتقل کیا گیا۔
حیدرآباد: سال نو پر ہوائی فائرنگ اور آتش بازی سے متعدد افراد زخمی
چوں کہ پولیس نے اس مرتبہ سیکیورٹی بہت سخت رکھی تھی تو ہوائی فائرنگ کے الزام میں 59 ملزمان کو گرفتار بھی کیا گیا جب کہ ساحل سمندر پر ہلڑ بازی کرنے پر بھی 6 ملزمان گرفتار ہوئے، کراچی پولیس نے ہوائی فائرنگ کے الزام میں ایسٹ سے 20، سینٹرل سے 21، کیماڑی سے 7، کورنگی سے 9، ساؤتھ سے 6 اور لیاری سے 2 افراد کو گرفتار کیا اور مقدمات درج کیے۔
بڑے وقتوں بعد یہ دیکھا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے انتہائی سخت اقدامات کیے گئے، لیکن اس کے باوجود فائرنگ کے واقعات ہوئے جس کا نتیجہ یہی نکالا جا سکتا ہے کہ ایک جاہل شخص اگر ہتھیار اٹھالے تو اس کو سمجھایا جا سکتا ہے، لیکن ایک پڑھا لکھا اٹھا لے تو وہ زیادہ خطرناک بن جاتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ وہ پڑھا لکھا اور اسمارٹ ہے اور تعلقات بھی ہیں تو وہ بچ جائے گا، اور ایسا ہو بھی جاتا ہے۔
لیکن گزشتہ رات ایسا ہر جگہ نہیں ہوا، پولیس نے 60 کے قریب لوگوں کو گرفتار کیا اور کراچی پولیس آفس میں ویڈیوز موصول ہونے کے بعد مزید گرفتاریاں ہوں گی، ہوائی فائرنگ کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک مخصوص کلاس جس کا تعلق امیر، غریب یا جاہل ان پڑھ سے نہیں ہے، انھوں نے اسے اپنی عزت اور کلچر بنا لیا ہے، ایسے لوگ آپ کو شادی ہال کے اندر اور باہر بھی نظر آتے ہیں۔
ایسے لوگوں کی نظر میں پولیس یا قانون نافذ کرنے والوں کے میسج پر کہا جاتا ہے ’ابے کچھ نہیں ہوتا دیکھ لینا‘ اور جب ہو جاتا ہے تو معافی ترلوں پر آ جاتے ہیں، کراچی پولیس کو چاہیے اپنے تفتیشی افسران کے ذریعے ہوائی فائرنگ کرنے والے عناصر کو ایسا سبق سکھائیں کہ جن کو معلوم ہو وہ آئندہ آتشیں ہتھیار کو ہاتھ لگانے سے پہلے انجام کے بارے میں بھی سوچ لیا کریں۔
کراچی میں ہوائی فائرنگ کی سب سے بڑی وجہ دھڑا دھڑ بننے والے اسلحہ لائسنس بھی ہیں، جو ہر شخص کو بھاری پیسوں کے عوض جاری کر دیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ وہ اسلحہ بھی ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے اب آپ کو گھروں تک پہنچایا جاتا ہے، ایسے اسلحے کے ذریعے فائرنگ تو ایک رات ہوتی ہے، لیکن ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائم سارا سال ہوتے رہتے ہیں۔
شہر قائد کو جب تک ڈی ویپنائز نہیں کیا جاتا، امن و امان کی صورت حال ہمیشہ خطرے میں رہے گی، پولیس کو اگر ہوائی فائرنگ کا مرض روکنا ہے تو اس کا جڑ سے علاج کرنا ہوگا عارضی علاج مسئلے کا حل نہیں۔