سویڈن: بین الاقوامی نوبیل کمیٹی نے جنسی ہراسگی اسکینڈل کے باعث رواں برس ادب کے شعبے میں نوبل انعام دینے کی تقریب منعقد کرنے سے انکار کردیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ادب کے شعبے میں نوبل انعام دینے والی کمیٹی جسےسویڈش اکیڈمی کہا جاتا ہے، کمیٹی نے جنسی ہراسگی کے باعث رواں برس نوبل انعام کی تقریب منعقد کرنے سے انکار کردیا ہے۔
ادب کے شعبے میں نوبل انعام دینے والی کمیٹی کی خاتون ممبر کے شوہر اور کمیٹی سے وابستہ فوٹو گرافر جین ارنالٹ پر پہلی خاتون سیکریٹری سارا ڈینئس کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزامات ہیں، جس کے باعث حالیہ دنوں کمیٹی مشکلات کا شکار ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سارا ڈینئس کے استعفیٰ دینے کے باعث کمیٹی کی چھ خواتین بھی مستعفی ہوگئی تھی جس کی وجہ سے کمیٹی کی اٹھارہ سیٹوں میں سے سات سیٹیں خالی ہوچکی ہیں، جس کے باعث کمیٹی اب کسی خالی سیٹ پر کسی اور رکن کی تقرری نہیں کرسکتی کیوں کہ ضابطے کے مطابق بارہ ارکان کا کورم پورا ہونا ضروری ہے۔
نوبل انعام دینے والی کمیٹی کا کہنا ہے کہ سنہ 2018 کے نوبل انعام جیتنے والے شخص کے نام کا اعلان آئندہ برس 2019 کے نوبل انعام جیتنے والے کے ساتھ کیا جائے گا۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ حالیہ جنسی ہراسگی اسکینڈل نے دنیا سب سے بڑے نوبل انعام کو متاثر کیا ہے، جو سنہ 1901 سے ہر سال کیمیا، فزکس، ادب، فیزیولوجی اور امن کے لیے خدمات انجام دینے والے افراد کو دیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ عالمی جنگ عظیم کے باعث سنہ 1935 میں کمیٹی کو ایسا کوئی شخص نہیں ملا تھا جسے نوبل انعام دیا جاسکے۔
نوبیل کمیٹی میں جنسی اسکینڈل کے باعث بحران شدید تر ہوگیا، سویڈش بادشاہ کی مداخلت
خیال رہے کہ سویڈش اکیڈمی نے جنسی ہراسگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیٹی کی اٹھارہ خواتین ارکان کو فرانسیسی باشندے جین ارنالٹ نے بلیک لسٹ کرنےکی دھمکی دے کر جنسی طور پر ہراساں کیا۔ واضح رہے کہ الزامات کا یہ کیس 1996 سے 2017 کے درمیان طویل عرصے پر مشتمل ہے۔
کمیٹی نے اس بات کی بھی تصدیق کردی ہے کہ نوبیل انعام کے لیے منتخب ہونے والے ادیبوں کے نام بھی تواتر کے ساتھ وقت سے قبل منکشف ہوتے رہے ہیں، ان الزامات نے ادب میں نوبیل انعام کی ساکھ کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔
واضح رہے کہ ارنالٹ سویڈش اکیڈمی کی ایک رکن کیٹرینا فراسٹنسن کے شوہر ہیں، جس کی وجہ سے کمیٹی میں انھیں بہت زیادہ عمل دخل حاصل تھا، خواتین ارکان کا مطالبہ تھا کہ فراسٹنسن سے استعفیٰ لیا جائے جو اکیڈمی ضابطہ اخلاق کے باعث ممکن نہیں تھا جس پر احتجاج کرتے ہوئے خواتین ارکان نے استعفے دیے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔