نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
جبران اُبلے ہوئے انڈے کا ایک ٹکڑا منھ میں رکھتے ہوئے بولا: ’’مجھے تو اب بھی بڑی تھکن محسوس ہو رہی ہے۔‘‘
’’میں بھی تھکی ہوئی ہوں۔‘‘ فیونا نے بتایا: ’’ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ جب ٹھندا پانی ڈریٹن کے منھ پر پڑا ہوگا تو اس کی کیا حالت ہوئی ہوگی، کاش ہم دیکھ سکتے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگی۔
’’مجھے لگتا ہے اب وہ ہمارے ساتھ کچھ اور برا کرے گا، میں نے نوٹ کیا ہے کہ وہ ہم سے بہت خار کھاتا ہے۔‘‘ دانیال نے خیال ظاہر کیا اور کیک کا ٹکڑا منھ میں ڈالا۔
’’ہاں، وہ ایسا کر سکتا ہے لیکن وہ مجھ سے زیادہ قوتیں نہیں رکھتا۔‘‘ فیونا نے کہا۔ وہ تینوں بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ دانیال نے کہا کہ یہ بات تو ہے کہ اگر اس کی مدد ایک شیطان جادوگر کر رہا ہے تو ہمارے مدد کے لیے بھی کچھ اچھے لوگ موجود ہیں۔ فیونا نے اپنا خیال پیش کیا کہ کنگ کیگان کا جادوگر زرومنا بھی ان کی مدد کر رہا ہے لیکن کس طرح، یہ بھی واضح نہیں ہے۔ ناشتہ کر کے وہ اٹھے تو آٹھ بج رہے تھے۔ جب وہ مقررہ مقام پر پہنچے تو شَین ایک نیلے رنگ کی فور وھیل ایس یو وی کے ساتھ کھڑا ان کا منتظر تھا۔ وہ انھیں دیکھ کر خوشی چہکا: ’’تم بالکل وقت پر پہنچے ہو، میں تینوں کے لیے الگ الگ سامان تیار کرا دیا ہے۔ اس میں اسنیکس، فلش لائٹس، رسیاں، پانی اور ضرورت کی چند دوسری چیزیں شامل ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم تینوں موسم کے مطابق لباس پہنا ہے یہ اچھا ہے، آج موسم کی پیش گوئی اگرچہ ہمارے حق میں ہے تاہم سردی بڑھ سکتی ہے۔‘‘
تینوں نے اپنا اپنا سامان اٹھایا اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ فیونا نے بٹوہ نکال کر پوچھا: ’’اس پر کتنا خرچہ آئے گا، مجھے امید ہے کہ آپ کو برطانوی کرنسی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، ہمارے پاس اس وقت یہی کرنسی ہے۔‘‘

’’نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘ شین نے اسے رقم بتائی جو فیونا نے ادا کر دی اور پھر گاڑی کلونی نیشنل پارک کی طرف چل پڑی۔

ڈریٹن نے انھیں جاتے دیکھ لیا تھا لیکن ان کا پیچھا کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اسے پتا تھا کہ وہ تینوں قیمتی پتھر حاصل کر کے لے آئیں گے۔ اس نے سوچا کہ یہ وقت کیسے گزارا جائے، تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اس نے دریائے یوکان کے کنارے سونا چھاننے کا فیصلہ کیا لیکن سردی بہت تھی اس لیے اس نے ایک مقامی دکان کا رخ کر لیا تاکہ دستانے، بوٹ اور ضرورت کی چند دوسری چیزیں چرائی جا سکیں۔ اسے خریدنا نہیں آتا تھا، بس چوری کرنے ہی کی عادت تھی ہمیشہ سے یا چھیننے کی۔
(جاری ہے)

Comments