نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
وہ دونوں انگور کی بیلوں کے درمیان کھڑے فیونا کو خوف زدہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، جبران کے منھ سے نکلا: ’’کیا اور کوئی بھیانک واقعہ ہونے والا ہے ہمارے ساتھ؟‘‘ فیونا نے جواب میں انھیں ڈرانا نہیں چاہا، بلکہ بولی کہ اب بہتر یہی ہے کہ جلد سے جلد انگور کے بیل کی جڑ میں کھدائی کی جائے اور پکھراج نکالا جائے۔ فیونا نے یہ کہہ کر بیٹھ گئی اور مٹی کھودنے لگی، جبران اور دانیال بھی اس کی مدد کرنے لگے تاکہ جلدی سے اسے نمٹایا جا سکے۔ ابھی انھوں نے تھوڑا ہی کھودا تھا کہ ان کے پیچھے غراہٹوں کی آوازیں آنے لگیں۔ دانیال نے جلدی سے کھدائی روک کر پیچھے دیکھا اور پھر اس کے منھ سے بے ساختہ نکلا: ’’کتا … یہ تو کتا ہے!‘‘
فیونا اور جبران نے بھی پلٹ کر دیکھا تو جبران نے کہا: ’’دانی یہ کتا نہیں ہے، لیکن مجھے نہیں پتا یہ کیا چیز ہے، پر ہے بہت غلیظ قسم کی۔‘‘ فیونا نے منھ سے نکلا: ’’تسمانیہ کا شیطان لگ رہا ہے یہ!‘‘
دانیال حیران ہو گیا: ’’تسمانیہ کا شیطان بھلا کیا چیز ہے؟‘‘ فیونا نے انھیں یاد دلایا کہ جو کتاب انھوں نے خریدی تھی، اس میں اس کی تصویر موجود تھی اور لکھا تھا ’تسمانین ڈیوِل!‘‘ جبران یہ سن کر چونک اٹھا اور بولا کہ اسے بھی یاد آ گیا۔ اس نے کہا یہ ’ٹاز‘ ہے، دانی یاد کرو کارٹون کیریکٹر۔ یہ وہی ہے۔ تب دانی نے پریشان ہو کر کہا: ’’یہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ شیطان تیزی سے ہماری ہی طرف آ رہا ہے۔‘‘
اُس جانور کا جسم گہری بھوری فر سے ڈھکا ہوا تھا، اور اس کے دانت باہر نکلے ہوئے تھے، جن سے رال ٹپک رہی تھی۔ اور اس کے حلق سے بھیانک قسم کی غراہٹ نکل رہی تھی۔ جب وہ کافی قریب آ گیا تو دانی چیخا: ’’کچھ کرو فیونا!‘‘
فیونا نے جلد سے اپنے اور جانور کے درمیان جادو سے آگ بھڑکا دی۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس جانور نے اس پر سے لمبی چھلانگ لگا دی اور ان سے تقریباً بیس فٹ کی دوری پر کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے اتنی خوف ناک چیخ نکالی کہ ان تینوں کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی۔ جبران اور دانیال کو لگا کہ ان کا جسم ٹھنڈا پڑنے لگا ہے۔ فیونا تیز لہجے میں بولی: ’’کوئی بھی اپنی جگہ سے ذرا بھی ہلنے کی غلطی نہ کرے، اگر ہم ہلے تو یہ فوراً حملہ آور ہو جائے گا اور لمحوں میں ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔‘‘
اسی لمحے ان کے پیچھے سے ایک تیز غراہٹ سنائی دی۔ وہ بری طرح چونک اٹھے۔ فیونا نے مڑ کر دیکھا وہاں اسی قسم کا ایک اور جانور کھڑا تھا۔ جبران نے گھبرا کر کہا: ’’اب تو دو دو تسمانوی بھوتیا جانور ہو گئے!‘‘ اس سے قبل کہ وہ کچھ سوچ سکیں، ایک اور جانور انگور کی بیلوں کے درمیان سے چھلانگ لگا کر ان سے محض چند فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہو کر غرانے لگا۔ اور پھر چوتھا بھی انگور کی بیلوں سے نکل آیا۔ ’’چار ہو گئے، یہ ہمیں مار ڈالیں گے۔‘‘ دانیال روہانسا ہو کر بولا۔ ’’فیونا، فوراً اپنا قد بڑا کر دو اور ان سب کو کچل دو۔‘‘
اچانک تسمانیہ کے شیطانوں میں سے ایک نے فیونا کے گلے پر چھلانگ لگا دی۔ اس نے جلدی سے گلا بچانے کے لیے اپنے ہاتھ اوپر کیے۔ عین اسی لمحے گولی چلنے کی دھماکے دار آواز سنائی تھی، جس نے جانوروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی۔ ایک اور فائر ہوا اور جانور ان تینوں سے پیچھے ہٹ گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک شخص ہاتھوں میں رائفل لیے کھڑا تھا اور چلا کر کہہ رہا تھا: ’’بچو میری طرف آؤ، میں نے پہلے کبھی اتنے بڑے شیطان نہیں دیکھے۔‘‘
ابھی اس نے اپنی بات ختم نہیں کی تھی کہ ایک شیطان نے اچھل کر دانیال پر چھلانگ لگا دی، اور اسے نیچے گرا کر اس کے سینے پر چڑھ گیا۔ فیونا اور جبران کے منھ سے چیخیں نکل گئیں۔ اس شخص نے شیطان کی طرف رائفل سیدھی کی اور پھر کافی اونچائی پر کئی ہوائی فائر مار دیے۔ اس بار سارے جانور خوف زدہ ہو کر بھاگ گئے۔ جبران اور فیونا نے جلدی سے آگے بڑھ کر دانیال کو اٹھایا اور پوچھا کہ وہ ٹھیک تو ہے۔ دانیال بہت گھبرایا ہوا تھا لیکن خوش قسمتی سے اسے چوٹ نہیں آئی تھی۔ انھیں اس شخص کی آواز سنائی دی: ’’بچو، تم میرے انگور کے باغ میں کیا کر رہے ہو؟‘‘
فیونا کے ذہن میں اگرچہ یہ سوال نہیں اٹھا تھا لیکن جیسے ہی اس نے سنا، وہ فوراً ہوشیار ہو گئی۔ اس نے بات بنا کر کہا: ’’میرے اس دوست کو بہت بھوک لگ گئی تھی اس لیے ہم باغ سے کچھ انگور لینے رک گئے تھے لیکن پھر اس سے یہاں کچھ گر گیا تھا جسے ہم تلاش کرنے لگے۔‘‘
باغ کے مالک نے سپاٹ لہجے میں کہا: ’’میرا نام ونچنزو منزانیو ہے، میں اور میری بیوی ابھی ابھی گھر پہنچے اور ہم نے پورے گھر اور باغ میں سرخ پیٹھ والی مردہ مکڑیاں دیکھیں، یہ سب کیا ہے، کیا آپ کے پاس اس کی بھی کوئی وضاحت ہے؟‘‘
جبران کو اچانک ایک خیال سوجھا، وہ جلدی سے بولا: ’’جب ہم کھدائی کر رہے تھے، میرا مطلب ہے کہ فیونا کی انگوٹھی تلاش کر رہے تھے، تو یہ مکڑیاں زمین سے باہر نکل آئیں، اور ہم ان سے بچنے کے لیے آپ کے گھر بھاگے تھے۔‘‘
’’اور میرے قالین پر آگ کیسے لگی؟‘‘ اب ونچنزو کی آواز نارمل نہیں رہی تھی، بلکہ اس میں غصہ جھلک رہا تھا۔ جبران نے گھبرا کر جلدی سے کہا: ’’دراصل فیونا نے سوچا کہ اگر اس نے انھیں آگ سے نہیں جلایا تو یہ ہمیں کاٹ کھائیں گی۔ لیکن پھر یہ لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں آ گئیں۔‘‘
’کیا مطلب، لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں آ گئیں؟‘‘ اس نے آنکھیں نکال کر کہا۔ جبران نے نے بتایا کہ ان سرخ مکڑیوں کو لمبی ٹانگوں والی مکڑیوں نے مار ڈالا تھا۔ اس کے بعد جب ہم واپس یہاں آ کر انگوٹھی تلاش کرنے لگے تو کہیں سے یہ تسمانیہ کے شیطان نمودار ہو گئے۔
’’کیا کہانی ہے، بہت عجیب۔‘‘ باغ کے مالک نے انھیں گھور کر دیکھا۔ ’’خیر کیا تم لوگوں کو انگوٹھی مل گئی۔‘‘ جبران نے جلدی سے نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ تینوں ڈرے ہوئے تھے کہ اب پتا نہیں باغ کا یہ مالک کیا کہے گا اور کیا کرے گا، لیکن ان کی توقع کے برخلاف اچانک اس نے مسکرا کر دانیال کو مخاط کر کے کہا: ’’تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اندر جاؤ، میری بیوی تمھیں کھانے کو کچھ دے دیں گی، اور میں یہاں ان دونوں کے ساتھ انگوٹھی ڈھونڈنے میں مدد کر دوں گا۔‘‘
دانیال نے یہ سن کر اسی میں اپنی بھلائی محسوس کی کہ وہ خاموشی سے اندر چلا جائے، اگرچہ وہ جانا نہیں چاہتا تھا لیکن یہ سو کر کہ باغ کا مالک پھر غصے میں نہ آ جائے، وہ سر ہلا کر گھر کی طرف چلا گیا۔
باغ کے مالک نے اس کے جاتے ہی باقی دونوں سے ان کے نام دریافت کیے، اور پھر بولا کہ چلو انگوٹھی تلاش کرتے ہیں۔ وہ انگور کی بیل کی جڑ میں گھٹنے زمین پر رکھ بیٹھا تو اس کے سرمئی بال اس کی آنکھوں پر گرے۔ لیکن اسی لمحے اس نے فیونا کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو فیونا نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں بیل کی جڑ میں موجود مٹی کی طرح بھوری تھیں۔ فیونا نے جلدی سے نظریں ہٹا کر کہا: ’’وہ ایک بڑی سی انگوٹھی ہے۔‘‘
’’کس قسم کی انگوٹھی؟‘‘ باغ کے مالک نے پوچھا تو فیونا نے بتایا کہ اس میں پکھراج جڑا ہوا ہے۔ اس نے بات بنائی کہ اسے انگوٹھی کی پروا نہیں لیکن پکھراج اس کے لیے بہت اہم ہے، کیوں کہ وہ خاندانی نشانی ہے۔
’’ٹھیک ہے، میں سمجھ گیا۔‘‘ باغ کے مالک نے کہا۔ اور جبران نے فیونا کی طرف دیکھ کر منھ ہی منھ میں لفظ ’جھوٹی‘ کہا، جسے فیونا نے سمجھ لیا اور اس نے مسکرا کر جواباً آنکھ مار دی۔
(جاری ہے)
Comments