تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

چودھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

سورج کی نرم گرم شعاعیں نیزوں کی طرح کھڑکی سے اندر داخل ہو کر فیونا کو جگانے لگیں۔ وہ کسمسا کر اٹھی اور کھڑکی کے پار لہلہاتے پھول دیکھنے لگی۔ یکایک وہ چونک اٹھی۔ "ارے آج تو ہفتہ ہے۔” اچھل کر بستر سے اتری۔ منھ ہاتھ دھو کر مستعدی سے الماری سے کپڑے نکالے اور بدل کر باورچی خانے میں گھس گئی۔ اس کی ممی مائری گاجر دھو رہی تھیں۔ فیونا میز کے سامنے بیٹھ گئی۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

"بس ایک منٹ، میں کچھ نہ کچھ دے دوں گی ابھی۔ دراصل آج میں نے باغیچے سے یہ تازہ گاجر نکالے ہیں۔ میں نے تمھارے لیے آج رات کے کھانے میں شلجم اور بروسل کی کونپلیں بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ تمھیں یہ ننھے ننھے گوبھی تو پسند ہی ہیں۔ قیمہ اور آلو کا بھرتہ شلجم اور بروسل کے کونپلوں کے ساتھ کیسا رہے گا؟”

"آپ جانتی ہیں ممی، مجھے قیمہ اور آلو کا بھرتہ پسند ہیں۔” فیونا بولی۔ "لیکن اس وقت تو میں صرف سیریل ہی کھاؤں گی۔ میں اپنے نئے دوستوں سے ملنے جاؤں گی۔ ہم سارا دن ساتھ کھیلیں گے اس لیے ممی مجھ سے کچھ زیادہ توقع نہ رکھیں آج۔”

"ہاں، آج ہفتہ ہے، کھیلنے کا دن ہے، چلو یہ اچھا ہے۔ میں بھی بیکری میں آج دیر تک کام کروں گی۔ جانے سے پہلے میں ‘پرفیکٹ بی’ سے شہد بھی لوں گی۔” مائری نے دھلے گاجر ایک طرف پڑے شلجموں کے پاس ہی رکھ دیے اور گیلے ہاتھ ایک کپڑے سے خشک کرنے لگیں، پھر بولیں۔ "میرے خیال میں سیریل پڑ ا ہوا ہے، بس ابھی دیتی ہوں۔”

"اوہ ممی، آپ کتنی اچھی ہیں، سچ بتاؤں آج آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔ میں آپ کو مشورہ دوں گی کہ جبران کے والدین کی طرف جائیں، وہ آپ کو کھلے دل سے خوش آمدید کہیں گے۔ مسٹر تھامسن، جنھیں آپ نے بھیجا تھا، وہ بھی جبران کے پاپا کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اپنے ساتھ یہ ننھے ننھے گوبھی بروسل بھی لے جائیں۔ یہ کتنا خوب صورت اتفاق ہے ممی کہ مجھے بھی نئے دوست مل گئے ہیں اور آپ کا تعلق بھی دفتر سے نکل کر گھر تک پھیل گیا ہے، ہماری دوستی کی وجہ سے آپ کو بھی دوست مل گئے ہیں۔ ”

"اوہ میری پیاری بیٹی، خدا تمھیں اپنی حفاظت میں رکھے۔” مائری نے جذباتی ہو کر فیونا کا ماتھا چوم لیا۔ فیونا مسکرانے لگی۔ ناشتہ کر کے وہ جلدی سے اٹھی اور برتن بیسن میں رکھ دیے۔ "ممی، میں واپس آ کر انھیں دھو لوں گی، مجھے ابھی دیر ہو رہی ہے۔”

اس نے ممی کے گال پر بوسہ دیا اور دوڑتی ہوئی گھر سے نکل گئی۔ جبران اور دانیال اس کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ اس وقت اینگس کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر بنے پارک میں بیٹھے ہوئے تھے۔

"بڑی دیر کر دی تم نے، دس منٹ لیٹ ہو۔” جبران نے کہا۔

"دراصل آنکھ ہی دیر سے کھلی، میں بہت گہری نیند سوئی رہی۔”

تینوں تیز تیز قدموں سے اینگس کے گھر کے دروازے پر پہنچ گئے۔ دستک پر وہ باہر نکلے، انھوں نے دیکھا اینگس کے بال بکھرے ہوئے ہیں، آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہیں اور چہرہ بھی دھلا نہیں ہے۔ فیونا نے صبح بخیر کہتے ہی کہا "انکل کیا آپ سوئے نہیں؟”

"دراصل میں ساری رات جاگ کر یہ کتاب پڑھتا رہا، تم لوگ اندر آ جاؤ، میں تمھیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے کتاب میں کیا پایا، سب کچھ حیرت انگیز اور جوش میں ڈال دینے والا ہے، چلو آؤ اندر۔”

وہ اندر داخل ہوئے تو اینگس نے پوچھا کیا تم لوگوں نے ناشتہ کر لیا؟ تینوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اینگس بولے کہ میں نے تو نہیں کیا لیکن میں چند بسکٹ ہی کھاؤں گا۔ جبران نے کہا صرف بسکٹ تو کوئی بہتر ناشتہ نہیں ہے، کیا آپ کے پاس سیریل یا انڈے نہیں ہیں۔ جبران نے گھر میں چاروں طرف نظر دوڑا کر دیکھا۔ "کیا دودھ والا روزانہ دودھ نہیں لاتا، اور ریفریجریٹر بھی نہیں ہے کیا؟”

اینگس نے چشمہ اپنے ہاتھ سے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ "آتا ہے، دودھ والا بھی آتا ہے، اور انڈے بھی آتے ہیں، مگر میں اسے پچھلے کمرے میں رکھ دیتا ہوں۔ وہ کافی ٹھنڈا رہتا ہے اس لیے مجھے ریفریجریٹر کی ضرورت نہیں رہتی۔ جب میرے گھر میں پنیر بھی آتا ہے تو وہ بھی وہیں اس کے پاس رکھ دیتا ہوں۔ مجھے کبھی اس سے کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ چلو تم لوگ کرسیوں پر بیٹھ جاؤ۔ میں نے تمھیں بہت کچھ بتانا ہے۔” یہ کہ کر اینگس خود بھی ان کے سامنے اپنی مخصوص آرام کرسی پر بیٹھ گئے۔

"سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کتاب کے درمیان سے کسی نے چند اوراق پھاڑ دیے ہیں، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ زیادہ تر کتاب محفوظ ہے۔ میں نے اس میں بہت ساری دل چسپ باتیں پڑھی ہیں، اس کتاب میں ایک قسم کا منتر بھی ہے۔ یہ ایسا منتر ہے جو بادشاہ کیگان کے کسی وارث کو ان جگہوں پر پہنچا سکتا ہے جہاں جادوئی ہیرے چھپائے گئے ہیں۔”

تینوں ہمہ تن گوش ہو گئے۔ اینگس نے کتاب کھول لی اور پڑھنے لگے۔ "کتاب میں لکھا ہے کہ بادشاہ کیگان ابھی فلسطین جانے کا منصوبہ ہی بنا رہا تھا کہ اس کے بارہ آدمی ہیرے چھپا کر کہیں چلے گئے اور بادشاہ کی ہدایت کے مطابق کبھی واپس نہیں آئے۔ یہ راز انھی کے ساتھ ہی رہا کہ ہیرے کہاں کہاں چھپائے گئے ہیں۔ بہ قول آل رائے کیتھ مور جب بادشاہ کو قتل کر دیا گیا اور قلعے کو نذر آتش کیا گیا، تو وہ کئی برسوں تک غائب رہا۔ دراصل وہ دنیا بھر میں گھوم پھر کر ان بارہ آدمیوں کو تلاش کرتا رہا۔ آخر کار اس نے انھیں ڈھونڈ نکالا اور ان سے جہاں تک ممکن ہو سکا واقعات کی تفصیل جمع کر لی۔ ذرا سوچو، یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ وہ کئی برس بعد لوٹا اور یہ ساری تفصیل کتاب میں درج کر دی۔ اس میں ایک ہار کا بھی ذکر ہے جس کے بارہ کونے ہیں اور وہ کسی ستارے کی شکل میں ہے۔ اس کا ہر کونا ایک ایک آدمی اور ہیرے کا نمائندہ ہے، دیکھو اس کی تصویر۔”

اینگس آگے کی طرف جھک کر اس کی تصویر دکھانے لگے۔ "یہ تو بالکل ویسی ہی تصویر ہے جیسی کہ ہم نے منقش شیشے پر دیکھی تھی۔” جبران حیران ہو کر بولا۔ "فیونا نے اس کی تصویر بھی اتاری ہے۔”

"یہ کوئی معمولی ہار نہیں۔” اینگس بتانے لگے۔ "رالفن کے جادوگر لومنا نے یہ ہار اسی وقت ہی بنوایا تھا جب وہ جادوئی گولا بنوا رہا تھا اور یہ بھی ایک ہی سونے سے بنایا گیا تھا۔ اس نے بارہ اصلی ہیروں سے چاندی لے کر اسے ہار میں استعمال کیا۔ جب دوگان کے آدمیوں نے بادشاہ کیگان کو جان سے مار دیا تو انھوں نے اس کے گلے سے یہ ہار بھی کھینچ کر نکالا تھا۔ اس کے بعد بادشاہ دوگان نے اسے پہنا اور پھر اس کے بعد اس کی آنے والی نسلوں نے اسے اپنے گلے کی زینت بنایا۔”

(جاری ہے….)

Comments

- Advertisement -