تازہ ترین

پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ، براہ راست دیکھیں

چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آج چین...

دیامر: مسافر بس کھائی میں گرنے سے 20 مسافر جاں بحق، متعدد زخمی

دیامر: یشوکل داس میں مسافر بس موڑ کاٹتے ہوئے...

وزیراعظم نے گندم درآمد اسکینڈل پر سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی کو ہٹا دیا

گندم درآمد اسکینڈل پر وزیراعظم شہبازشریف نے ایکشن لیتے...

پی ٹی آئی نے الیکشن میں مبینہ بے قاعدگیوں پر وائٹ پیپر جاری کر دیا

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے...

خلابازوں کو چاند پر طویل عرصے تک زندہ رکھنے کے لیے سائنس دانوں نے بڑی کامیابی حاصل کر لی

سائنس دانوں نے خلابازوں کو چاند پر طویل عرصے تک زندہ رکھنے کے لیے بڑی کامیابی حاصل کر لی، انھوں نے جوہری ایندھن کے ایسے خلیے تیار کر لیے ہیں جو سائز میں پوست کے بیجوں جتنے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سائنس دانوں نے توانائی کا جدید ترین ذریعہ ڈیزائن کر لیا ہے جس کی مدد سے اب خلابازوں کا چاند پر طویل عرصے تک رہنا ممکن ہو جائے گا، ناسا کے آرٹیمس پروگرام نے توقع ظاہر کی ہے کہ وہ چاند پر 2030 کے قریب باقاعدہ ایک اسٹیشن تعمیر کر لیں گے۔

یہ کارنامہ ویلز کی یونیورسٹی آف بنگور کے سائنس دانوں نے انجام دیا ہے، یونیورسٹی کے پروفیسر سائمن مڈلبرگ نے کہا کہ یہ کام ایک چیلنج تھا لیکن یہ کافی دل چسپ بھی رہا۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق چاند پر جدید ٹیکنالوجی کے لیے درکار بہت سے قیمتی وسائل موجود ہیں، اور اسے مریخ پر جانے کا دروازہ بھی سمجھا جاتا ہے، یہ امید کی جا رہی ہے کہ اب چاند کو دیگر سیاروں تک پہنچنے کے لیے ’اسپرنگ بورڈ‘ کے طور پر استعمال کیا جا سکے گا۔

نیوکلیئر فیوچرز انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر مڈلبرگ کے مطابق اس جوہری ایندھن کا اگلے چند مہینوں میں مکمل تجربہ کیا جائے گا، محققین نے ابھی چھوٹے نیوکلیئر فیول سیل، جسے ٹریسو فیول کہا جاتا ہے، اپنے شراکت داروں کو جانچ کے لیے بھیجا ہے، اس ٹریسو فیول سیل کو رولز رائس کے تخلیق کردہ مائیکرو نیوکلیئر جنریٹر کو طاقت دینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ چاند کے کچھ حصوں پر درجہ حرارت منفی 248 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے کیوں کہ چاند پر سطح کو گرم کرنے کے لیے کوئی ماحول دستیاب نہیں، بنگور یونیورسٹی کے سائنس دان مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں کہ وہاں زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے توانائی اور حرارت پیدا کرنے کا نیا طریقہ ایجاد کر سکیں۔

پروفیسر مڈلبرگ کے مطابق یہ نیوکلیئر جنریٹر ایک ’پورٹیبل ڈیوائس‘ ہے جو ایک چھوٹی کار کے سائز کا ہے، اور اسے راکٹ پر چپکایا جا سکتا ہے، اب اس کا مکمل تجربہ کیا جائے گا جس میں اس کار جتنے جنریٹر کو ایسی قوتوں کے ذریعے ٹیسٹ کیا جائے گا جن کا اسے خلا میں پھینکنے کے بعد سامنا ہوگا۔

راکٹوں کو طاقت دینے والے جوہری نظام پر کام کرنے والی بنگور کی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر فلس مکورونجے نے کہا ’’نئی ٹیکنالوجی مریخ تک پہنچنے میں لگنے والے وقت کو تقریباً نصف کر سکتی ہے، اس نیوکلیئر تھرمل پروپلشن کے ساتھ اب مریخ تک پہنچنے میں تقریباً 4 سے 6 ماہ کا وقت لگے گا، جب کہ موجودہ دورانیہ 9 ماہ سے زیادہ ہے۔‘‘

Comments

- Advertisement -