منگل, مئی 13, 2025
اشتہار

کیا ازخود نوٹس پر قانون سازی ہو سکتی ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد: حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کی صفوں سے چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس (سوموٹو) کے تنہا اختیار کو ختم کرنے کے لیے کی جانے والی قانون سازی کے خلاف آرا سامنے آ گئی ہیں۔

اے آر وائی نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور قانون دان سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ موجودہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے باوجود آئینی ترمیم نہیں ہو سکتی۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور ماہر قانون بابر اعوان نے بھی کہا کہ سپریم کورٹ سوموٹو کا اختیار 184 سیکشن 3 کے تحت استعمال کرتی ہے، اور آئین میں ترمیم دوتہائی اکثریت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔

لطیف کھوسہ نے ن لیگ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ پر چڑھ دوڑنا یا دولخت کرنا ن لیگ کا وتیرہ رہا ہے، اور عدلیہ کے خلاف کارروائی کرنے والوں کو ن لیگ نے ہمیشہ نوازا ہے۔

انھوں نے عدلیہ میں واضح تقسیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آئینی معاملات پارلیمنٹ اور قانونی معاملات سپریم کورٹ کو دیکھنا چاہیے، سپریم کورٹ کے رولز میں تبدیلی کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ہوگی، اور اس کے لیے دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ موجودہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے باوجود آئینی ترمیم نہیں ہو سکتی۔

چیف جسٹس کے ازخودنوٹس کا اختیار ختم کرنے کا مسودہ قانون منظور

لطیف کھوسہ نے کہا ’’مجوزہ بل کو سپریم کورٹ مسترد کر دے گی کیوں کہ یہ آزاد عدلیہ پر قدغن ہے، تاریخ سے کسی نے سبق نہیں سیکھا، نواز شریف ہماری بات مانتے تو آج 62 ون ایف نہیں ہوتا۔‘‘

ماہر قانون بابر اعوان نے اس سلسلے میں کہا کہ قانون جہاں موجود ہوتا ہے ترمیم بھی وہاں ہوتی ہے، اور سپریم کورٹ نے اپنے الگ رولز بنائے ہیں جہاں ترمیم ہو سکتی ہے، لیکن پارلیمنٹ کے ذریعے سپریم کورٹ کے رولز میں ترمیم نہیں ہو سکتی۔

انھوں نے کہا ’’پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ کے رولز میں ترمیم دراصل ادارے پر عدم اعتماد ہے۔‘‘

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں