محسنؔ بھوپالی نے کہا تھا
ملی نہیں ہے ہمیں ارضِ پاک تحفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا
بلاشبہ یہ وطن غیر منقسم ہندوستان کے انگنت مسلمانوں کے ایثار کے صلے میں انعام کی صورت ہمیں ملا ہے۔ ہمارے اسلاف نے آزاد وطن کے لیے عملی جدوجہد کی، انتھک محنت کی، بے مثال قربانیاں دیں تب کہیں جا کر غلامی کی قید سے خود کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوئے۔
ہماری وہ بزرگ خواتین جنھوں نے پاکستان بنتے دیکھا ہے کم و بیش ایک سے واقعات سناتی ہیں۔ انگریزوں بالخصوص فسادات کے دوران ہندوؤں اور سکھوں کی عصبیت اور ظلم و بربریت کی بات ہو تو ایک ہی دہائی سنائی دیتی ہے کہ مسلمانوں کی عزت، جان، مال، گھر کچھ بھی محفوظ نہ رہا تھا۔ عجب بے سرو سامانی کا عالم تھا۔ پاکستان بنانے میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی فعال کردارا دا کیا۔ مسلمان خواتین کی سیاسی بیداری نے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا۔ بی اماں تحریکِ خلافت کے دوران منظرِ عام پر آئیں۔ قائدِ اعظم کی عزیز ہمشیر محترمہ فاطمہ جناح ہر مشکل گھڑی میں اُن کے ساتھ ساتھ رہیں، آپ سیاسی سفر میں قائداعظم کی بہترین معاون اور مشیر تھیں۔ آپ مسلم لیگ کے خواتین کے جلسوں سے خطاب کرتیں تو خواتین کی تعلیم پر زور دیتیں اور تعلیمِ نسواں کا شعور بیدار کرتیں۔ اس ضمن میں آپ کی ساتھی خواتین بیگم رعنا لیاقت علی خان، امجدی بیگم، جمیلہ شوکت، بیگم شائستہ اکرام اللہ، نورالصباح بیگم، بیگم اختر سلیمان، بیگم جمعہ، بیگم اصفہانی، لیڈی ہارون، بیگم ممتاز شاہنواز، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، وقار النساء نون و دیگر کی مخلصانہ کاوشوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان تمام معزز خواتین نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے آزاد وطن کے حصول کے لیے بہت فعال کردار ادا کیا۔ یہ وہ خواتین تھیں جن کی کوئی نہ کوئی اعلیٰ یا ادنیٰ درجے کی سیاسی حیثیت تھی مگر نام وَر مسلم لیگی خواتین کے ساتھ ساتھ عام عورتیں بھی اپنے اپنے انداز سے سرگرمِ عمل رہیں لیکن ان کی حیثیت گمنام سپاہی کی سی تھی۔ان تمام خواتین نے نہ صرف آزادی کی جدوجہد میں انتھک محنت کی بلکہ بڑی قربانیاں بھی دیں، زیورات جو اکثر خواتین کی کمزوری ہوتے ہیں اپنے ہاتھوں انہوں نے فنڈز میں دے دیے۔ اس راہ میں کئی کانٹے تھے جنھیں وہ پھول سمجھ کر چنتی رہیں۔
ایک مرتبہ ایک ضعیف خاتون نے قائد اعظم سے صحت کی جانب سے غفلت نہ برتنے کی درخواست کرتے ہوئے ٹانک استعمال کرنے کا مشورہ دیا، جسے سن کر قائدِ اعظم مسکرائے اور فرمایا، ”آپ کا بہت بہت شکریہ، میری صحت خراب نہیں ہے، بات صرف یہ ہے کہ مجھے کام بہت زیادہ کرنا پڑتا ہے، اگر آپ لوگ مجھ سے زیادہ کام کرنا شروع کر دیں تو اس سے بڑا ٹانک میرے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔“ قائدِاعظم نے ہمیشہ خواتین کو ہمّت اور حوصلے سے کام لینے کی تلقین کی اور ان کی منزل کے حصول کے لیے لگن اور جدوجہد کو سراہا۔
اُن دنوں تمام مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ گھر بار ہوتے ہوئے بھی بے گھری کا خوف سر پر سوار رہتا۔ ایسے میں 3 جون کے تقسیم کے اعلان 14 اگست 1947ء کو آزاد وطن کے حصول کی خوشی ناقابلِ بیان تھی اور پھر اپنے آزاد وطن جانے کے راستے کی صعوبتوں نے جینا محال کر دیا تھا، لیکن آزادی کی خوشی نے ہر مشکل گھڑی کو آسان بنا دیا۔
قائدِ اعظم نے فرمایا تھا، ”مجھے ہر پڑھی لکھی عورت کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیں پاکستان بنانا ہے اور ہر عورت کو تعمیری کام کرنا ہو گا۔“
ایک آزاد وطن حاصل کرنے کے بعد خواتین کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوگئی تھیں۔ نئے ملک کے ساتھ ذمہ داریاں بھی نئی تھیں، خواتین کی لگن اور ہمت مزید بڑھ گئی تھی۔ انہوں نے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ مضحکہ خیز المیہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے لیے سرتوڑ کوششیں کرنے والی خاتون کو مادرِ ملّت کا خطاب تو دے دیا گیا لیکن اُن کی قدر نہیں کی گئی۔ اگر مادرِ ملّت کو مواقع میسر آتے تو وہ پاکستان کی بقا و ترقی کے لیے اپنا کردار ضرور ادا کرتیں۔ آپ اولو العزم خاتون تھیں۔
اے پیکرِ خلوص و وفا، اے متاعِ جاں
خدمات آپ کی ہیں گراں فاطمہ جناح
( سید ذوالفقار حُسین نقوی)
بیگم رعنا لیاقت علی خان نے اپنی ساتھی خواتین کے تعاون سے عورتوں کی ترقی، فلاح و بہبود کے لیے فعال ادارہ اپوا قائم کیا۔ بیگم اختر سلیمان نے نہ صرف تحریکِ پاکستان کے لیے عام کارکن سے کام لیا بلکہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی معذور بچّوں کی بحالی کے لیے ادارہ SRCC اور بے سہارا خواتین کے لیے ”نشیمن“ قائم کیا۔ بیگم اصفہانی نے کاشانۂ اطفال بنایا۔ نورالصباح بیگم، بیگم تزئین فریدی اور بیگم صدیق علی خان نے خواتین اور بچّوں کی فلاح و بہبود کے لیے کاوشیں کیں اور فعال کردارادا کرتی رہیں۔ تحریک کے دنوں‌ میں‌ اور بعد میں‌ پاکستان کی خدمت کا جذبہ اتنا قوی تھا کہ خواتین بڑے سے بڑے کام کر جاتی تھیں۔تاریخ گواہ ہے کہ پنجاب لاہور سیکریٹریٹ پر جھنڈا لہرانے والی بھی ایک طالبہ ہی تھی۔
کل تک آزادی کی کامیاب جنگ لڑنے والی اور پاکستان بنتے ہوئے دیکھنے والی خواتین ماضی کے دریچے کھولتی ہیں تو جہاں انھیں وہ خوں آشام مناظر، قائدِ اعظم اور اُن کے رفقائے کار کی جدوجہد اور خواتین کی کاوشوں اور قربانیوں کا خیال آتا ہے وہاں احساسِ زیاں بھی ستاتا ہے کہ
یہ داغ داغ اُجالا، یہ شبِ گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
(فیض احمد فیضؔ)
گزشتہ پچھتّر برسوں میں پل پل رنگ بدلتی ملکی معاشی، سیاسی اور سماجی صورتحال دیکھ کر کئی بار یقین کے جھلملاتے دیے ٹمٹمائے، لیکن اِن نہایت تشویش ناک، غیر تسلی بخش اور غیر یقینی حالات میں بھی خواتین نے تعمیرِ وطن کے لیے اپنا سفر جاری رکھا۔
چینی کہاوت ہے کہ ” اگر آپ کے ذہن میں چند ماہ کے لیے موسم کے اعتبار سے کوئی منصوبہ ہے تو موسمی پودے لگائیے، اگر کچھ عرصے کا منصوبہ ہے تو چھوٹے درخت لگائیے، اگر برسوں پر محیط منصوبہ ہے تو پھر گھنے تناور درخت لگائیے اور اگر صدیوں پر محیط منصوبہ ہے تو عورتوں کو اپنے ساتھ شامل کر کے جمہوریت کے درخت کو پروان چڑھائیے۔ “
بلاشبہ خواتین کی اہمیت کو اگر تسلیم کیا جائے اور اُن کی صلاحیتوں پر بھروسہ اور ان کا اعتراف کیا جائے تو خواتین ہر میدان میں کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔جب سے ہماری وزارت اور کابینہ میں خواتین کی شمولیت بڑھی ہے، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کلیدی عہدوں پر فائز ہورہی ہیں۔ ترقی و خوش حالی بھی نظر آئی ہے، گو یہ مسرت صدفی صد ابھی ہمارے حصّے میں نہیں آئی اور اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے ابھی مزید محنت اور ریاضت کی ضرورت ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اگر خلوصِ نیّت کے ساتھ پاکستان کی بقا کے لیے خواتین اپنا عملی کردار اسی طرح‌ ادا کرتی رہیں تو بقول شاہدہ ؔحسن
قدم پہ خود ہی کھلیں گی راہیں، سحر سے خود سلسلہ ملے گا
ہم اپنے سارے چراغ لے کر چلیں گے تب راستہ ملے گا
ہم اپنے حصّے کی روشنی سے اجال دیں گر تمام رستے
جو تھک گئے ہیں انھیں بھی چلنے کا اک نیا حوصلہ ملے گا
ہم اپنے ریشم ملا کے بُن لیں جو ایک پوشاک الفتوں کی
تو اِس زمیں پر کوئی بھی پیکر نہ پھر دریدہ قبا ملے گا
اور پھر خواتین کے عزمِ محکم اور عملِ پیہم سے پاکستان کو ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
میں راہِ ترقّی کا ہوں دیا
دنیا نے مجھے تسلیم کیا
مجھے عزّت، مان، وقار دیا
میں، عفت، عزّت، عصمت ہوں
میں ہمّت ہوں، میں قوت ہوں
میں طاقت ہوں، میں جرأت ہوں
میں عورت ہوں، میں عورت ہوں
(عنبرین حسیب عنبرؔ)

Comments