لاہور اور سیالکوٹ کے محاذوں پر بھارت کی اچانک اور بزدلانہ کارروائی پر پاکستان نے سرحدوں کا دفاع کرنے کے ساتھ بھارت کا یہ غرور اور گھمنڈ بھی خاک میں ملا دیا کہ اس کے پاس جنگی ساز و سامان اور فوج ہم سے زیادہ ہے۔ جب دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ختم ہوئی تو دنیا کو معلوم ہوگیا کہ جنگ صرف دلیری و شجاعت اور حکمتِ عملی سے جیتی جاتی ہے۔
ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں لاہور اور سیالکوٹ کا دفاع ہماری قومی اور عسکری تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ یہ وہ جنگ تھی جس میں پاکستانی فوج اور عوام نے اکٹھے ہو کر وطن کا دفاع کیا۔
جنگِ ستمبر اس لیے بھی ہماری بڑی فتح تھی کہ دشمن نے مکمل تیّاری اور منصوبہ بندی کے تحت باقاعدہ افواج اور بھاری اسلحہ کے ساتھ اچانک حملہ کیا تھا، جب کہ پاکستان اس جنگ کے لیے بالکل تیّار نہیں تھا۔
بھارت نے پاکستان کی شہری آبادی پر ٹینک بردار دستوں سے حملہ کیا تھا۔ واہگہ کے محاذ سے بھارتی ٹینک نہر کے پُل تک پہنچ گئے اور راستے میں آبادیوں پر قبضہ کرلیا۔ بزدل دشمن نے حملہ نصف شب کو کیا تھا۔ زیادہ تر لوگ سو رہے تھے۔ بھارتیوں نے پراپیگنڈہ کیا کہ وہ لاہور پر قبضہ کر چکے ہیں جب کہ سرحدوں پر موجود چند فوجیوں نے جان پر کھیلتے ہوئے پل توڑ دیا۔ اس پر بھارتی فوج متبادل انتظام کر کے مزید ٹینکوں کو نہر پار پہنچانے کی تیّاری کر رہی تھی کہ مزید جوان محاذ پر پہنچ گئے اور بھارتی ٹینکوں کی پیش قدمی روک کر لاہور شہر کے دفاع کا پہلا مورچہ بنا لیا۔
لاہور میں جنگ کی دل چسپ کہانیاں سننے میں آئیں۔ مثلاً جب شہر پر بھارتی طیارے پرواز کرتے تو عوام سائرن سن کر گلیوں اور چھتوں پر نکل آتے۔ ہر چند یہ خطرے کی بات تھی لیکن عوام کا جوش و خروش اتنا تھا کہ وہ موت کے خوف سے آزاد ہو چکے تھے۔ شہر میں سے فوجیوں کا گزرنا ایک جشن کی طرح ہوتا۔ لوگ ان پر پھول پھینکتے۔ چھتوں پر کھڑی خواتین ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر دعائیں کرتیں اور انھیں تحائف پیش کیے جاتے۔ بے شمار شہری بی آر بی نہر کے محاذ پر پہنچ گئے اور فوج کو اپنی خدمات پیش کر دیں۔ جہاں دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے تھیں۔
پاکستان کے دل لاہور اور تمام شہروں اور آزاد کشمیر میں عوام کے حوصلے بے حد بلند تھے۔ خصوصاً فوج اور عوام کے درمیان محبت اور باہمی احترام کا جو جذبہ 65ء کی جنگ میں پیدا ہوا تھا، وہ عدیم النّظیر اور ناقابلِ فراموش ہے۔