تازہ ترین

سیشن جج وزیرستان کو اغوا کر لیا گیا

ڈی آئی خان: سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت...

سولر بجلی پر فکسڈ ٹیکس کی خبریں، پاور ڈویژن کا بڑا بیان سامنے آ گیا

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے سولر بجلی پر فکسڈ...

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ای کامرس اور پاکستانی نوجوان

تحریر: بلال حبیب

آج کا نوجوان انٹرنیٹ کی اہمیت اور طاقت کو خوب سمجھتا ہے اور ای کامرس (الیکٹرانک کامرس) کے وسیلے سے مالی فوائد بھی سمیٹ رہا ہے۔ ای کامرس انٹرنیٹ پر اشیا کی خرید و فروخت اور مختلف شعبہ جات میں‌ بامعاوضہ خدمات کی فراہمی کو کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں‌ ویب سائٹس، موبائل ایپس اور سوشل میڈیا پیجز پر بالخصوص نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کاروبار اور تجارت کی غرض سے مصروف ہیں جو ملکی معیشت کے لیے بھی سود مند ثابت ہوا ہے۔

معروف یورپی ویب سائٹ سٹیٹسٹا ڈاٹ کام کے اعداد و شمار کے مطابق 2021ء میں دنیا بھر کی ای کامرس ریٹیل سیل 5 ٹریلین ڈالر سے زائد تھیں۔ سالانہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں‌ 2021ء میں 5 کروڑ سے زائد ای کامرس صارف تھے جنہوں نے آن لائن معروف برانڈز سے خریداری کی۔ پاکستان میں 2020ء میں 528 ملین ڈالر کی سالانہ ای کامرس سیلز تھیں جو کہ گذشتہ سالوں کی نسبت تقریبا 3 گنا زائد تھیں۔ پڑوسی ملک انڈیا کا سال 2021ء میں ای کامرس سے منسلک بزنس 84 بلین ڈالر تھا جو کہ پاکستان کی نسبت کئی گنا ہے۔

کرونا وائرس کے بعد لاک ڈاؤن کے دوران ای کامرس سے منسلک افراد کے کام میں پہلے کی نسبت بہت تیزی آئی اور آن لائن خرید و فروخت بڑھ گئی اور پاکستان کے بڑے شہروں کے علاوہ مختلف صوبوں میں چھوٹے شہروں میں‌ پڑھے لکھے نوجوان اس طرف راغب ہوئے اور آج باعزّت طریقے سے اپنی روزی کما رہے ہیں۔

صرف جنوبی پنجاب کی بات کی جائے تو یہاں‌ پسماندہ علاقوں کے نوجوان بھی ای کامرس کی تربیت حاصل کر کے اپنا روزگار کما رہے ہیں۔ رحیم یار خان کے صادق ٹاؤن کی رہائشی 22 سالہ روحما خاور اپنے گھر کے 5 افراد کی واحد کفیل ہیں جنہوں نے معاشی حالات کو بہتر کرنے کے لیے ای کامرس کو دو سال قبل اپنایا تھا۔ روحما نے بتایا کہ وبا کے دوران لاک ڈاؤن سے ان کے والد نوکری سے محروم ہو گئے اور نوبت فاقوں تک پہنچ گئی تھی۔ ان کے دو چھوٹے بہن بھائی معاشی حالت خراب ہونے کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں‌ رکھ سکے تھے۔ روحما اسی دوران ای کامرس کی طرف آئیں اور کاروبار کے لیے مشہور آن لائن پلیٹ فارم ایمازون پر بطور ورچوئل اسسٹنٹ کام کرنے کی چار ماہ کی تربیت حاصل کی۔ اس کے لیے انہوں نے مقامی نجی ادارے میں داخلہ لیا اور 18 ہزار روپے فیس ادا کر کے کورس مکمل کیا اور ایمازون پر قائم ایک آن لائن اسٹور سے منسلک ہوگئیں۔ آج وہ 6 سو سے 7 سو ڈالر ماہانہ تک کما رہی ہیں۔ روحما کا کہنا ہے کہ ای کامرس پلیٹ فارم پر تعلیم یافتہ نوجوان اگر کامیاب نہیں ہوتے تو اس کی وجہ غیر سنجیدگی ہے۔ ای کامرس کی تربیت پر مسلسل توجہ کے ساتھ باقاعدگی سے کام کرنا ضروری ہے۔ گلشن اقبال کی رہائشی 25 سالہ عائشہ احمد نے کمپیوٹر سائنسز میں ماسٹر کی ڈگری لی تھی اور انہیں کوئی نوکری نہیں ملی تھی۔ شادی کے بعد گزشتہ سال انہوں نے تین ماہ کا مفت ای کامرس کورس کیا اور دست کاری بیچنے والی ایک ویب سائٹ سے روزگار کمانا شروع کیا۔ اسی مہارت کی بنیاد پر انہیں ایک یورپی ملک کے کلائنٹ(انویسٹر) کے آن لائن اسٹور کے لیے ماہانہ تنخواہ 2 سو ڈالر خدمات فراہم کرنے کا موقع ملا۔ اس وقت عائشہ کے پاس تین کلائنٹ ہیں اور وہ 6 سو ڈالر ماہانہ کما رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ روزانہ 8 سے 10 گھنٹے دینا اور اپنا کام پورا کرنا کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ جناح پارک کے رہائشی 25 سالہ حسن طارق نے بھی انجینئرنگ کی تعلیم کے دوران 3 سال قبل ای کامرس پلیٹ فارم کو جوائن کیا تھا اور اپنی یونیورسٹی کی فیس ہی نہیں‌ شادی کے تمام اخراجات بھی اسی ذریعہ سے پورے کیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ای کامرس کو زیادہ سے زیادہ 2 ماہ میں سیکھ کر کوئی بھی پڑھا لکھا شخص روزگار کما سکتا ہے۔ اس میں دلچسپی لینے والے کو انگلش زبان اور کمپیوٹر کا بنیادی علم ہونا کافی ہے۔

ای کامرس سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ روایتی دکان داری کی نسبت یہاں سارا کام ایک لیپ ٹاپ یا ایک اسمارٹ فون سے کیا جاتا ہے جب کہ آن لائن خریدے گئے سامان کی ڈیلیوری گھروں میں کوریئر کمپنیوں کے ذریعہ کی جاتی ہے۔

رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت ٹیوٹا ( ٹیکنیکل ایجوکیشنل اینڈ ووکیشنل ٹرینگ اتھارٹی) کے ڈائریکٹر رحیم یارخان آفس سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق حکومت پنجاب نے ضلع بھر کے ٹیکنیکل ٹریننگ اداروں میں ای روزگار کے نام سے مفت تربیت فراہم کرنے کا سلسلہ 2017ء میں شروع کیا تھا۔ اس تربیت میں ای کامرس کورس کے علاوہ 3 اور کورسز شامل تھے۔ رحیم یارخان میں نوجوانوں کو اگست 2020 ء سے جون 2021ء تک 3 سیشنز میں ای کامرس کی تربیت گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی میں فراہم کی گئی تھی۔ اس میں 150 نوجوانوں نے حصہ لیا تھا اور 126 نوجوان پاس آؤٹ ہوئے تھے۔

ای کامرس کورس میں اگر کسی رکاوٹ کی بات کی جائے تو یہ ان طالب علموں کے لیے مشکل ہے جو حساب کتاب والے مضامین کو پسند نہیں کرتے یا لوگوں سے کاروباری بات چیت اعتماد سے نہیں کر سکتے۔ یہ کورس ان طالب علموں کے لیے بھی مشکل ہے جن کی تعلیم انگلش میڈیم میں نہ ہوئی ہو۔ لیکن ایک بڑا تعلیم یافتہ طبقہ ایسا ہے جس نے اپنی توجہ، لگن اور محنت سے ای کامرس کو وسیلۂ روزگار بنایا ہے اور نہ صرف انفرادی فوائد حاصل کیے ہیں بلکہ پاکستان کے معاشی ڈھانچے میں بھی تبدیلی کا سبب بنے ہیں۔

Comments

- Advertisement -