کراچی : جنوبی افریقہ سے ایبولاوائرس پاکستان منتقل ہونے کا خطرہ بڑھ گیا، خطرناک ایبولا وائرس سے متاثرہ 90فیصد مریض جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں دہشت کی علامت بننے والے ایبولاوائرس کا جنوبی افریقہ سے پاکستان منتقل ہونے کا خطرہ بڑھ گیا، اسلام آبادایئرپورٹ پرایبولاوائرس کی شناخت والاتھرمواسکینر خراب ہے جبکہ محکمہ صحت کاعملہ بھی ایئرپورٹ سے غائب ہیں۔
افریقہ سے آئے مسافروں کو تھرمو اسکینر سے چیک کرنا ضروری ہے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایات پر 2014 میں اسکینر لگایاگیا تھا، جس کے بعد محکمہ صحت اورسول ایوی ایشن اتھارٹی مسئلے سے نظریں چرانے لگے اور ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کو بھی سب اچھا ہے کی رپورٹ دی جانے لگی۔
خیال رہے ایبولاوائرس سےمتاثرہ 90 فیصد مریض جان کی بازی ہار جاتے ہیں
ایبولا وائرس کیا ہے؟
ایبولا ایک ایسا خطرناک وائرس ہے، جس میں مبتلا ستر فیصد مریضوں کی موت ہوجاتی ہیں، ایبولاوائرس کی ابتدائی علامات میں بخار ، گلے اور سر میں درد سرفہرست ہے، مریض متلی کے ساتھ ہاضمے کی خرابی میں مبتلا ہوجاتا ہے،جس کے بعد جوڑوں اور پٹھوں میں درد، خارش، اور بھوک میں کمی کے علاوہ جگر اور گردوں کی کارکردگی متاثرہو جاتی ہے۔
بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر
طبی ماہرین کے مطابق ایبولا سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر کے طور پر ہاتھ صابن سے دھوکر صاف ستھرے کپڑے سے خشک کرنا چاہئیں، بازار کے بنے مرغوب کھانے کھانے سے اجتناب کریں، گھر کے کونے صوفہ اور ببڈ کے نیچے وقفے وقفے سے جراثیم کُش ادویات کا اسپرے کریں، کمروں کی کھڑکیاں دروازے کھول کر سورج کی روشنی کا مناسب بندوبست کریں کیونکہ ایبولا کا جرثومہ جراثیم کش ادویات، گرمی، سورج کی براہ راست روشنی، صابن اور ڈٹرجنٹس کی موجودگی میں زندہ نہیں رہ سکتا۔
اگر گھر میں کوئی جانور مر گیا ہے تواس کو فوراً گھر سے باہر منتقل کردیں کیوں کہ مردہ جانوروں کی لاشوں سے بھی یہ مرض پھیل سکتا ہے، پالتو جانوروں کی صحت کا خیال رکھیں اور گھر سے چوہوں کا خاتمہ ممکن بنائیں۔