پاکستان اپنے قیام کے ایک سال بعد سے ہی اولمپک گیمز میں شریک ہونا شروع ہو گیا تھا آخری بار تمغہ 1992 میں جیتا تھا۔
پاکستان نے اپنے قیام کے بعد 1948 سے اولمپک گیمز میں حصہ لینا شروع کیا اور 1992 تک 10 تمغے حاصل کیے۔ گزشتہ 32 سال سے پاکستان کو کوئی میڈل نصیب نہیں ہوا۔ سب کے ذہنوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ آج ارشد ندیم جیولن تھرو کے فائنل میں کیا میڈل جیت کر اس قحط کو ختم کر پائیں گے؟
پاکستان کو اپنے پہلے اور دوسرے اولمپکس میں کوئی میڈل نہ ملا، تمغہ نہ جیتنے کا جمود 1956 میں ٹوٹا جب عبدالحمید کی قیادت میں ہاکی ٹیم سلورمیڈل کی حقداربنی۔ اس سے اگلے روم اولمپکس 1960 میں پہلا گولڈ میڈل حاصل کیا۔
انہی گیمز میں انفرادی حیثیت میں محمد بشیر نے ریسلنگ میں کانسی کا تمغہ جیتا جب کہ انفرادی حیثیت میں دوسرا اور آخری میڈل 1988 کے سیوئل اولمپکس میں حسین حسین شاہ نے باکسنگ میں برانز جیتا۔
جب پاکستان کے قومی کھیل ہاکی نے عروج دیکھا تو ٹوکیو اولمپکس 1964، میکسیکو اولمپکس 1968، میونخ اولمپکس 1972، مونٹریال اولمپکس 1976، لاس اینجلس اولمپکس 1984 اور بارسلونا اولمپکس 1992 میں دو گولڈ، دو سلور اور دو برانز میڈل حاصل کیے۔
1992 کے بعد سے 7 اولمپکس اور 32 سال گزر چکے ہیں اور میڈل کا انتظار طویل ہوتا جا رہا ہے۔ پیرس اولمپکس میں آج ارشد ندیم قوم کی آخری امید بچے ہیں وہ آج جیولن تھرو کے فائنل میں اتریں گے اور قوم کو ان سے میڈل کے حصول کی توقع ہے۔