اشتہار

کیا اس بار پاکستانی ٹیم آسٹریلیا میں تاریخ رقم کرپائے گی؟

اشتہار

حیرت انگیز

محمود غزنوی نے ہندستان پر 17 حملے کیے تھے تب کہیں جاکر اسے فتح نصیب ہوئی تھی اور وہ سومناتھ کے مندر تک پہنچنے میں کامیاب ہوا تھا۔ تاہم پاکستان کرکٹ ٹیم آسٹریلیا کے میدانوں میں اس پر 13 بار حملہ آور ہوچکی ہے اور اب تک اس کے ہاتھ فتح نہیں آسکی!

اگر گرین شرٹس کرکٹ کے میدان میں برصغیر کے نامور جنگجو کی پیروی کرتے ہیں تو انھیں آسٹریلوی مضبوط قلعہ سر کرنے کے لیے مزید چار سیریز اور مزید کئی سالوں کا انتظار کرنا پڑے گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پھر بھی ماہرین اور شائقین کویہ امید نہیں ہوگی کہ یہ ‘قلعہ الموت‘ ان کے ہاتھوں فتح ہو بھی پائے گا یا نہیں۔ مگر کیا کیجئے کہ دل ہر بار کی طرح اس لے پر دھڑکتا ہے کہ شاید اس بار پاکستان ٹیم کینگروز کو اس کے دیس میں ہرا کر آئے گی۔

ظہیر عباس سے لے کر عمران خان تک اور وسیم اکرم سے لے کر مصباح الحق تک بڑے بڑے کپتان آئے اور گئے مگر پاکستان کرکٹ ٹیم آسٹریلیا کے دورے میں آج تک کوئی ٹیسٹ سیریز نہ جیت سکی، تمام پاکستانی ٹیموں کے لیے کینگروز کے دیس کا دورہ ہمیشہ مشکل رہا۔ اب شان مسعود آسٹریلیا میں ٹیسٹ ٹیم کی قیادت کرنے والے گیارویں کپتان بن کر گئے ہیں اور شائقین کسی معجزے کے منتظر ہیں کہ مبادا ہمیں یہ خبر مل جائے کہ پاکستان نے آسٹریلیا کو ٹیسٹ سیریز میں۔ ۔ ۔

- Advertisement -

آگے لکھنے سے پہلے اور قارئین پڑھنے سے پہلے گرین شرٹس کا آسٹریلوی سرزمین پر ریکارڈ چیک کرلیں تو پھر ہمیں اس بار بھی نتیجہ اخذ کرنے میں تھوڑی آسانی ضرور ہوجائے گی۔ قومی کرکٹ ٹیم جب بھی سات سمندر پار براعظم آسٹریلیا گئی حالت انتہائی خستہ رہی۔ 13 میں سے 10 ٹیسٹ سیریز میں اسے ناکامی کا دکھ جھیلنا پڑا جبکہ 3 سیریز بھی بڑی مشکلوں سے ڈرا ہوئیں۔

ریکارڈز بک کو کھنگالیں تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان نے آسٹریلیا میں 1964 سے اب تک 37 ٹیسٹ میچز کھیلے اور صرف اور صرف 4 بار وہ خوش قسمت لمحات آئے جب فتح کا ’ہما‘ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سر بیٹھا۔ تقریباً 50 سالوں کی اس کرکٹ کہانی میں کینگروز نے گریش شرٹس کو 26 دفعہ مات دی اور 7 ٹیسٹ میچز بے نتیجہ ختم ہوئے۔

یہ بات شاید آپ کے لیے باعث حیرت نہ ہو کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو آسٹریلیا میں آخری ٹیسٹ میچ جیتے چوتھائی صدی سے بھی زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ یعنی ٹھیک 28 سال قبل 1995 میں شاہینوں نے کینگروز کو اس کے میدان پر قابو کیا تھا۔

کہتے ہیں کہ ہر ایشیائی ٹیم کے لیے دورہ آسٹریلیا ہمیشہ ہی سخت ترین رہا اور وہاں جیتنا جوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرا۔ مگر ماضی قریب میں ہمارے پڑوسی اور روایتی حریف بھارت نے اسے غلط ثابت کردکھایا ہے۔ انڈین ٹیم حالیہ ادوار میں آسٹریلیا سے دو بار سیریز جیت کر آئی ہے۔ ہر چیز میں ہم بھارت کا مقابلہ کرتے ہیں اسے پیچھے چھوڑنے کے خواہشمند ہوتے ہیں تو پھر یہاں بھی کیوں نہ شروعات ہوجائے اور قومی ٹیم بھی خوف کو دل سے نکال کر صرف جیت کے مقصد تحت کھیلے یا کم از کم نہایت مثبت سوچ کے ساتھ کھیلے۔

دورہ آسٹریلیا کے مشکل چیلنج پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وکٹ کیپر بیٹر کامران اکمل کا کہنا تھا پاکستان کو اچھی کرکٹ کھیلنی چاہیے۔ ہار جیت بعد کی بات ہے مگر ایک مقابلہ تو نظر آنا چاہیے۔ یقیناً تمام شائقین اور کرکٹ کے دلدادہ بھی پاکستان ٹیم سے صرف یہی چاہتے ہیں۔

آسٹریلیا کے موجودہ اوپنر اور پائے کے بلے باز عثمان خواجہ بھی دونوں ٹیموں کے درمیان پاکستانی سرزمین پر ہونے والی آخر سیریز کو شاندار قرار دیتے ہوئے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ پاکستانی ٹیم ان کے اس بار بھی سخت حریف ثابت ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مضبوط بیٹنگ لائن اپ آسٹریلیا آرہی ہے۔ بابر اعظم اس کلاس کے حامل بیٹر ہیں کہ باآسانی ان کا موازمہ اسمتھ اور کوہلی جیسے بلے باز سے کیا جاسکتا ہے۔ بولرز میں شاہین آفریدی کی رفتار اور سوئنگ بہترین ہے اس لیے بطور اوپنر شاہین آفریدی کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوگا۔

ویسے آسٹریلوی پرائم منسٹر الیون کے خلاف واحد چار روزہ پریکٹس میچ میں پاکستانی بیٹرز نے عمدہ بیٹنگ کی اور فوراً ہی آؤٹ ہو کر پویلین جانا پسند نہیں کیا۔ کپتان شان مسعود نے تو ناقابل شکست ڈبل سنچری جڑدی۔ پاکستان نے 9 وکٹوں کے نقصان پر 391 رنز جوڑے۔ پریکٹس میچ میں اس طرح کی بیٹنگ دیکھنے کے بعد کچھ امید تو ہوچلی ہے کہ اس بار شاید گرین شرٹس آسٹریلیا کے لیے ترنوالہ ثابت نہ ہوں مگر پھر بھی اصل امتحان تو پہلے ٹیسٹ میچ سے ہی شروع ہونا ہے۔

ویسے بھی اس میچ کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کے ڈائریکٹر محمد حفیظ کہہ چکے ہیں کہ کینبرا میں 4 روزہ میچ کے انتظامات دیکھ کر انھیں حیرانی اور مایوسی ہوئی۔ بقول ان کے پچ اس طرح کی تھی ہی نہیں جو آسٹریلیا کا خاصہ ہوا کرتی ہے یعنی پچ سلو تھی! ہوسکتا ہے کہ اس طرح کی سلو پچ بنانا ان کی حکمت عملی ہو تاہم پاکستان ٹیسٹ سیریز کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

ٹیسٹ سیریز کے آغاز سے قبل محمد حفیظ کے یہ الفاظ بھی پیش کرتا چلوں کہ مبادا یہ حرف بہ حرف سچ ہوجائے اور میں بلاگ میں لکھنے سے رہ جاؤں (مجھ سمیت اکثر شائقین کرکٹ کی خواہش بھی حفیظ کے الفاظ ہی ہیں) ٹیم ڈائریکٹر نے کہا کہ ’پاکستان ٹیم آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے چیلنج کے لیے تیار ہے، ہم یہاں مقابلہ کرنے نہیں بلکہ آسٹریلیا کو ہرانے کی سوچ کے ساتھ آئے ہیں۔ پاکستان کی یہ ٹیم اس ٹیسٹ فارمیٹ میں سیٹ ہوچکی ہے اور اس نے اپنے ملک کے لیے نمایاں کارکردگی دکھائی ہے، ٹیم چیلنج قبول کرنے کے لیے پرجوش ہے۔‘

اگر دیکھا جائے تو حفیظ کی پہلے والی بات تھوڑی دل کو لگتی بھی ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم نے بیٹنگ تو عمدہ کی لیکن پچ بھی تو سلو تھی۔ اگر آفیشل ٹیسٹ میچز کے آغاز کے بعد پچ کا رویہ سلو نہ رہا اور آسٹریلیا نے اسے روایتی طور پر فاسٹ بنا دیا تو پھر بھی کیا پاکستانی بیٹر ایسی کاکرکردگی دکھاپائیں گے؟ کیا کوئی بیٹر تب بھی ڈبل سنچری اسکور کرپائے گا؟ سارے سوالات کا جواب دور نہیں بس پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستانی بیٹنگ کے بعد صورتحال واضح ہو جائے گی۔

سوملین ڈالر کا سوال ہنوز وہیں کھڑا ہے کہ کیا اس بار پاکستان کرکٹ ٹیم آسٹریلیا میں تاریخ رقم کرپائے گی یا پھر سے پچھلی 13 سیریز کی طرح تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔ نتائج کچھ بھی ہوں شائقین پاکستانی کرکٹرز کو بہادری سے آسٹریلیا کا مقابلہ کرتا دیکھنا چاہتے ہیں۔

ہار جیت یقیناً کھیل کا حصہ ہے اور لڑ کرہارنے میں کوئی قباحت بھی نہیں ویسے بھی مشہورہ مقولہ ہے کہ ‘میدان جنگ میں قست بھی بہادروں کا ساتھ دیتی ہے‘۔ اگر پاکستان ٹیم کو قسمت کا ساتھ چاہیے تو بہادری تو دکھانا ہوگی۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں