تازہ ترین

فلسطین: تربوز نے دنیا بھر کے لوگوں کو کیسے ہم آواز بنایا؟

اسرائیل کے اندر حماس کے 7 اکتوبر کے اچانک اور تباہ کن حملے کے بعد سے گزشتہ 3 مہینوں کے دوران اسرائیلی وحشیانہ حملوں کو روکنے کے لیے جہاں دنیا بھر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا ہے، وہاں ایک تصویر تواتر سے سامنے آتی رہی ہے، اور یہ تصویر ہے تربوز کی۔

بعض لوگ فلسطین کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں میں تربوز کی تصویر کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں، یہ تصویر بینرز اور ٹی شرٹس اور غباروں اور سوشل میڈیا پوسٹس میں دیکھی جا سکتی ہے۔

دراصل سرخ گودے، سبز سفید چھلکے اور سیاہ بیجوں کے ساتھ کٹے ہوئے تربوز کے رنگ وہی ہیں جو فلسطینی پرچم پر ہیں، یہی وجہ ہے کہ نیویارک اور تل ابیب سے لے کر دبئی اور بلغراد تک یہ پھل فلسطین کے ساتھ یکجہتی کی علامت بن گیا ہے، جس نے مختلف زبانیں بولنے والوں اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والوں کو یکجا کیا۔

فلسطین سے جمع ہونے والے ٹیکس فنڈز سے متعلق افسوسناک خبر

 

View this post on Instagram

 

A post shared by SJ (@jam_musings)

آپ جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ایک خاص قسم کا سنسر شپ جاری ہے، اس کی وجہ سے اسرائیل کے خلاف پوسٹس کو روکا جاتا ہے، حتیٰ کہ فلسطین اور غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی پر بھی وار کیا جاتا ہے، اس قسم کی جابرانہ سنسر شپ سے بچنے کے لیے چین میں ایک تخلیقی شارٹ ہینڈ ’الگو سپیک‘ کا آغاز کیا گیا، پھر تو دنیا بھر کے لوگوں نے ٹک ٹاک، انسٹاگرام، اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے الگورتھم پر مبنی تعصبات سے بچنے کے لیے اس الگو سپیک کا استعمال شروع کر دیا۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Khaled Hourani (@khaledhourani6)

اب انٹرنیٹ تصویری علامات سے بھرا پڑا ہے، تربوز کا ایموجی اس کی تازہ ترین مثال ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح تربوز، جو پہلے مغربی کنارے اور غزہ میں احتجاج کی علامت تھا، اور پھر فلسطینیوں کے ساتھ آن لائن یکجہتی کی عالمی علامت بن گیا۔ فلسطینیوں کے لیے تربوز پہلی بار نصف صدی قبل 1967 میں مزاحمت اور شناخت کی علامت بنا تھا۔ اس وقت اسرائیل نے حملے کر کے مغربی کنارے اور بیت المقدس (یروشلم) شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا تھا اور اپنے قبضہ شدہ علاقوں میں فلسطینی پرچم کی نمائش کو جرم قرار دے دیا تھا، جس پر لوگوں نے تربوز کو پرچم کے متبادل کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا، تب سے فلسطین میں تربوز کو مزاحمت اور شناخت کی علامت کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

2007 میں فلسطینی آرٹسٹ خالد حورانی نے فلسطین کی کہانیوں پر مبنی ایک کتاب کے لیے تربوز کے آرٹ کو فلسطینی پرچم کے طور پر استعمال کیا، اور آج دنیا کے متعدد ممالک کے آرٹسٹ تربوز کے آرٹ میں فلسطینی پرچم بناتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب اسرائیلی حملوں کے بعد اس عمل میں پھر تیزی آ گئی ہے، چند دن قبل فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں متعدد ایمبولینسز اور ٹیکسیوں پر تربوز کی بڑی بڑی تصاویر دیکھی گئیں اور ان تصاویر کے ساتھ لکھا گیا کہ ’یہ فلسطینی پرچم نہیں ہے‘۔

Comments

- Advertisement -