بدھ, فروری 5, 2025
اشتہار

پانامہ لیکس کو ایک سال کاعرصہ بیت گیا

اشتہار

حیرت انگیز

پانامہ لیکس کے تہلکہ خیز انکشافات کو ایک سال کا عرصہ بیت گیا، پانامہ لیکس میں دنیا کے 12 سربراہان مملکت کے ساتھ ساتھ 143 سیاست دانوں اور نامور شخصیات کا نام شامل تھے جنہوں نے ٹیکسوں سے بچنے اور کالے دھن کو  بیرونِ ملک قائم  بے نام کمپنیوں میں منتقل کیا۔

پانامہ لیکس میں پاکستانی سیاست دانوں کی بھی بیرونی ملک آف شور کمپنیوں اور فلیٹس کا انکشاف ہوا تھا جن میں وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کا خاندان بھی شامل ہے۔

ان انکشافات کے بعد پاکستانی سیاست میں کھلبلی مچ گئی اور ہرطرف حکمران خاندان کی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیاجانے لگا۔

پانامہ لیکس میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کے صاحبزادوں حسین نواز اور حسن نواز کے علاوہ صاحبزادی مریم صفدرکا نام بھی شامل تھا،  دستاویزات کے مطابق مریم صفدر نے سال 2011ء میں ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ میری لندن میں جائیداد تو دور کی بات پاکستان میں بھی میری کوئی پراپرٹی نہیں اور میں اب بھی اپنے والد کے ساتھ رہتی ہوں۔

panama

پانامہ لیکس انکشافات کے اگلے روز 5 اپریل 2016ء کو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’ کرپشن اور ناجائز طریقے سے دولت جمع کرنے والے نہ تو اپنے نام کی کمپنیاں رکھتے ہیں اور نہ ہی اثاثے اپنے نام پر رکھتے ہیں‘۔  بعد ازاں 22 اپریل 2016ء کو پھر قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ’ میرا اپنے آپ سے یہ عہد ہے کہ کمیشن کی رپورٹ کے نتیجے میں مجھ پر کوئی الزام ثابت ہوا تو میں ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا گھر چلاجاﺅں گا“۔

بعد ازاں ٹی وی ٹاک شوز ، پریس کانفرنسز اور پارلیمنٹ میں حکومتی اہلکار میاں نواز شریف اورا ن کے خاندان کا دفاع کرتے رہے ہیں جس میں یہ بات دہرائی جاتی رہی کہ پانامہ لیکس میں وزیر اعظم کا نام شامل نہیں پھر ان کی تحقیقا ت کا مطالبہ کیوں کیا جارہا ہے؟

میاں نواز شریف نے اپنے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ وہ 1997ء سے ہی اپنے خاندانی کاروبار سے الگ ہوچکے ہیں۔ آج بھی ان کے اثاثہ جات پر نظر ڈالی جائے توپتا چلتا ہے کہ وہ کبھی کاروبارسے الگ نہیں ہوئے بلکہ کاروبار سے تنخواہ وصول کرتے رہے اور ان کے حصص کی مقدار اقتدار میں آنے کے بعد بڑھتی چلی گئی نہ صرف یہ بلکہ ہر دور اقتدار میں شریف خاندان کے کاروبار نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی۔

Panama-leaks

مئی کی 16 تاریخ 2016 کو پارلیمان میں اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ’’ ہمارے والد محترم نے جلاوطنی میں پھر کمر باندھی اور جدہ میں ایک اسٹیل میل لگائی اس کی بنیادی سرمایہ کاری کے لیے دبئی فیکٹری کے فروخت سے حاصل ہونے والے سرمایے نے بھی مدد کی‘‘۔

’’جدہ کی یہ فیکٹری جون 2005ء میں اپنی مشینری، وسیع قطع اراضی اور دیگر اثاثوں سمیت تقریبا 64 ملین ریال یعنی 17 ملین ڈالر میں فروخت ہوگئی، دبئی اور جدہ کی ان فیکٹریوں کے تمام ریکارڈ اور دستاویزات موجود ہیں، یہ ہیں وہ ذرائع اور وسائل جن سے لندن کے فلیٹس خریدے گئے “۔

اس وقت تک یہ کیس پارلیمان اور میڈیا میں لڑا جارہا تھا۔ پانامہ کیس کے عدالت پہنچتے ہی حیران کن طورپر پارلیمان میں پیش کردہ سارے ذرائع بدل گئے۔ 5نومبر 2016ء کو قطری شہزادے کے خط کو بطور ثبوت عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس دوران وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پارلیمان کے سامنے جو بیان دیا تھا عدالت میں اس سے انکاری ہوگئے اور کہا کہ پارلیمانی میں کی جانے والی بات سیاسی بیان تھا۔

پانچ نومبر کو ایک سادہ کاغذ میں لکھے ہوئے خط میں قطری شہزادے حمد بن جاسم کا خط منظر عام پر آیا جس میں قطری شہزادے نے تحریر کیا کہ ’’مجھے یہ بتایاگیا کہ میاں شریف نے ہمارے کاروبار میں سرمایہ کاری کی تھی اور یہ بھی کہا گیا کہ لندن فلیٹس کے سارے سرٹیفیکیٹ تو قطر میں موجود تھے‘‘۔

panama

خط میں قطری شہزادے نے کسی ایک جگہ بھی یہ نہیں لکھا کہ فلیٹس ان کے تھے یا انہوں نے خریدے تھے بلکہ اس کے بجائے یہ کہا کہ فلیٹس کے کاغذات قطر میں موجود تھے اور فلیٹس اسی رقم سے لیے گئے تھے جو میاں شریف نے دی تھی۔

وزیر اعظم اور اُن کے فرزند کے بیانات سامنے آئے کہ دبئی کی فیکٹری بیچ کر پیسہ جدہ گیا پھرسپریم کورٹ میں قطری خط آنے کے بعد یہ بیان بھی غلط ثابت ہواکیونکہ قطری خط کے مطابق پیسہ دبئی سے جدہ گیا مگر کوئی ایک بینک ٹرانزیکشن پیش نہیں کی گئی کہ پیسہ دبئی سے قطر کس طرح منتقل ہوا۔

سپریم کورٹ میں جج صاحبان نے میاں خاندان کے وکیل سے اس بابت استفسار بھی کیا کہ کیا رقم اونٹوں پر لاد کر منتقل کردی گئی تھی ؟

پارلیمان میں اپنے خطاب میں میاں نواز شریف نے بھی انکشاف کیا تھا کہ دبئی اسٹیل مل 33 ملین درہم میں فروخت ہوئی تھی مگر جب دستاویزات جمع کیے گئے تو مل کے مالک کا نام طارق شفیع نکلا اور عدالت کو بتایا گیا کہ وہ میاں شریف کے بے نام دار تھے اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئی کہ دبئی اسٹیل مل کی فروخت سے 12ملین درہم حاصل ہوئے کیونکہ مل نقصان میں چل رہی تھی اور یہ درہم بھی اقساط کی صورت میں ادا ہوئے۔

وزیر اعظم کی ایوان میں کی گئی تقریر اور عدالت میں پیش کیے جانے والی کاغذات میں 21ملین درہم کافرق نکلا ۔ شریف خاندان یہ بتانے سے بھی قاصر رہا کہ دبئی اسٹیل مل کس سرمایے سے لگائی گئی؟ اگر پیسہ دبئی سے جدہ گیا اور فیکٹری لگی تو 12 ملین درہم قطر کیسے پہنچے؟ اور اگر پیسہ قطر گیا تو جدہ میں مل کیسے لگی؟ فلیٹس کی خرید قطری سرمائے سے کی گئی تو پھر دبئی اور جدہ کی فیکٹریاں کیا خاندانی پیسے سے لگائی گئیں ؟

وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم کا کاروبار اور رقم سے کوئی تعلق نہیں یہ دادا اور حسین نواز کے آپس کا معاملہ ہے ۔ اگر ایسا ہی تھا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیوں میاں نواز شریف نے دو مرتبہ پانامہ کے حوالے سے قوم سے خطاب کیا تھا اور اپنی خاندانی تاریخ پارلیمان میں پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

دیکھا جائے تو حکمران خاندان کے وکلاء نے روز اول سے اپنے دفاع کو بہتر بنانے کی کوشش کی اس دوران بیانات اور دستاویزات میں تضادات بھی سامنے آئے، یہی وجہ ہے کہ عدالت کے سامنے موثر انداز سے حکمران خاندان کا کیس نہ لڑ سکے۔

عدالت میں مقدمہ اس کے دو حصوں میں چلایا گیا، ایک یہ کہ لند ن میں موجود فلیٹس چھپائے گئے دوسرا یہ کہ فلیٹس کیسے خریدے گئے؟ اس کے علاوہ تیسرا رخ منی لانڈرنگ کا کیس بھی تھا۔

ویڈیو دیکھیں

 نوے کی دہائی میں ایف آئی اے کی تحقیقات اور اسحاق ڈار کے بیان حلفی کا جائزہ لینے سے منی لانڈرنگ کے الزامات میں بھی کافی وزن نظر آیا، سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے 2011ء میں میاں خاندان کے شوگر مل اور حسین نواز کے درمیان ہونے والی منی ٹرانزیکشن کی تحقیقات شروع کی تھی ، جس میں بھی منی لانڈرنگ کا خدشہ ظاہر کیا جارہاتھا۔

اسی طرح اگر میاں نواز شریف کے اثاثہ جات پر نظر دوڑائی جائے تو حسین نواز بڑی بڑی رقوم وزیر اعظم کو بھجواتے رہے اور وزیر اعظم نے وہ رقم آگے مریم صفدر کو منتقل کی جس سے انہوں نے زمین خریدی اور رقم والد کو واپس کردی۔

پاناما دستاویزات کے مطابق حسین نواز نے میاں نواز شریف کو 52 کروڑ روپے کی رقم تحفے میں دی سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی رقم حسین نواز کے پاس کہاں سے آئی ؟ اس رقم کا ماخذ کیاتھا ؟ یہ ابھی تک عدالت کو بھی نہیں بتایا گیا۔

پانامہ کیس سے متعلق عدالت میں جواب دائر کرتے ہوئے مریم صفدر نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ نہیں بلکہ دادی کے ساتھ رہتی تھیں ۔کیا ایک اور غلط بیانی ؟ اس سارے قصے کی سب سے اہم دستاویز 2000ءمیں اسحاق ڈار کا وہ بیان حلفی ہے جس کو اگرمنی ٹریل کا سب سے اہم ذریعہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

اس بیان حلفی کی بنیاد پرحدیبیہ مل کیس بنایاگیا تھا اور لاہو ر ہائی کورٹ نے تکنیکی بنیاد پر اس ریفرنس کو مسترد کردیا تھا لیکن کبھی بھی اس کی تحقیقات نہیں ہوئی اور عدلیہ کے اس فیصلے کے خلاف نیب نے کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا۔

عوامی پیسوں سے چلنے والے اداروں میں سے کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ عوام کے پیسوں کولوٹنے والوں کی تحقیقات کی جاتی ۔ صرف سپریم کورٹ ہی آخر ی آپشن رہا جس نے اس کیس کی سماعت شروع کی سپریم کورٹ نے ملکی تاریخ کے اس اہم ترین کیس کا فیصلہ 23فروری 2017ءکو محفوظ کرلیااور کسی بھی وقت اس کا فیصلہ آئے گاجس سے ملک کا مستقبل روشن ہوجائے گا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں