برلن: بین الاقوامی صحافتی تنظیم آئی سی آئی جے کے لیے کام کرنے والے صحافی نے انکشاف کیا ہے کہ پاناما پیپرز کے بعد کئی ملکوں نے قانونی معاونت کے لیے رابطہ کیا مگر حیران کن طور پر پاکستان نے کوئی مدد طلب نہیں کی۔
آئی سی آئی جے سے منسلک جرمی صحافی فریڈرک اوبرمائر نے انکشاف کیا کہ دو برس قبل سامنے آنے والی پاناما لیکس کے بعد متعدد ممالک نے قانونی مشاورت حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ تھا ابھی تک پاکستان نے پاناما سے متعلق کوئی قانونی مدد طلب نہیں کی اور نہ ہی وہاں سے مشاورت کے حوالے سے کوئی رابطہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ دو برس قبل اپریل میں بحراوقیانوس کے کنارے پر واقع ملک پاناما کی صحافتی تنظیم آئی سی آئی جے نے غیر قانونی اثاثہ جات کی ڈیڑھ لاکھ دستاویزات پامانہ پیپرز کے نام سے شائع کی تھیں، جس کے باعث دنیائے ممالک کی کئی حکومتیں ہل گئیں تھیں۔
مزید پڑھیں: دنیا بھرمیں تہلکہ مچانے والی پاناما پیپرز کی نئی لیکس منظرعام پر
پاناما لیکس میں یورپی ملک آئس لینڈ کے وزیراعظم سگمندر گنلگسن اور اُن کی اہلیہ کا نام سامنے آنے کے بعد عوام نے شدید احتجاج کیا، جس کے بعد انہیں مجبورا وزارت سے مستعفیٰ ہونا پڑا تھا۔
دستاویزات میں سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا نام بھی سامنے آیا، جس کے بعد انہیں عدالتوں میں پیش ہوکر صفائی دینی پڑی تھی۔ پاناما دستاویزات میں سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سمیت دیگر 400 سے زائد افراد کے نام سامنے آئے تھے، شریف خاندان کی آفشور کمپنیاں منظر عام پر آنے کے بعد نوازشریف نے قوم سے خطاب کر کے مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے بینچ تشکیل دیا گیا، جس نے نوازشریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے آفشور کمپنیوں کی مزید تحقیقات نیب کے سپرد کردی تھیں۔