تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

"پیرس چمک رہا تھا!”

ثریا حسین کے سفر ناموں میں ان کی خوب صورت اور رواں نثر، پُرلطف منظر نگاری اور دل چسپ اسلوب قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ علی گڑھ کی، شعبۂ اردو سے وابستہ ثریا حسین نے 1984 تک اہم درس گاہ میں‌ صدرِ شعبہ کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔

ثریا حسین کا ایک سفر نامہ ’پیرس و پارس‘ کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے نام میں جو حسن ہے، اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

’پیرس و پارس‘ گویا مشرق و مغرب کی تہذیبوں کا وصال ہے۔ یہ جدید و قدیم دو متضاد لہروں اور سمتوں کا حسین امتزاج بھی ہے۔ گویا مصنفہ نے ’پیرس و پارس‘ کے ذریعے دو مختلف اور متضاد تہذیب و تمدن سے عوام کو روشناس کرانے کی کوشش کی ہے اور ان دونوں کے تضادات اور مماثلات کو بھی روشن کیا ہے۔

یہ سفر نامہ بنیادی طور پر ان کے پیرس کے قیام پر محیط ہے۔ انھوں نے وہاں جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، جیسے جیسے مقامات مشاہدے میں آئے، جیسے جیسے افکار و خیالات کے جزیروں سے آشنائی ہوئی، ان سب کو انتہائی خوب صورت پیرائے میں ڈھال کر اسے سفرنامے کی شکل عطا کر دی۔

اس میں جہاں پیرس کی تہذیبی، ثقافتی، علمی، ادبی صورت حال سے آشنائی ہوتی ہے وہیں وہاں کے رنگ و بو سے بھی ذہن کو نئی روشنی ملتی ہے۔

وہاں کے دریا، محلات، مصوری اور گیت، غرض یہ کہ ہر چیز کا ذکر تمام تر تفصیلات کے ساتھ موجود ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ کتاب محض جغرافیائی اور تاریخی معلومات کا مجموعہ بن کر رہ گئی ہے، بلکہ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس ملک کا سفر کر رہے ہیں اور ایک ایک ذرے سے آشنا ہو رہے ہیں۔ چوں کہ پیرس مصوری کا مرکز رہا ہے، تو وہاں کے مصوروں کی تفصیلات بھی درج ہیں۔

شہر دل ربا پیرس کے بارے میں اس سفر نامے سے ایک پارہ آپ کے ادبی ذوق اور سیاحت کے شوق کی تسکین کے لیے پیش ہے:

”رات کے دو بجے پیرس سے پندرہ میل دور ’اورلی‘ ایئرپورٹ، طیارہ کی کھڑکی سے دیکھا، دور دور تک پیرس چمک رہا تھا۔ دل کی شکل یہ سحر آفریں، روشنیوں کا شہر! پیرسیائی نام کے کیلٹک قبیلہ نے پہلی صدی قبل مسیح دریائے سین کے کنارے ایک گاؤں آباد کیا جو لوٹیشیا کہلاتا تھا، بعد میں اس جگہ رومن سپاہیوں نے اپنی چھاؤنی چھائی۔

تیسری صدی عیسوی میں جرمن قبائل کے حملوں سے بچنے کے لیے لوٹیشیا کے باشندے دریائے سین کے جزیروں پر چلے گئے۔ ان کی یہ بستی بہت جلد پیرسیوں کا شہر کہلانے لگی اور اس قبیلہ نے Sle De La Cite جزیرے کے شہر کو قلعہ بند کیا۔ (اسی جزیرہ پر آج نو تردام کا کلیسا اور پولیس کا ہیڈکوارٹر موجود ہے)

ثریا حسین مزید لکھتی ہیں:

پیرس بہت جلد ایک اہم مسیحی مرکز بن گیا اور یہاں بہت سی خانقاہیں قائم ہوئیں۔ کئی بادشاہوں نے اس شہر کو اپنی راج دھانی بنایا۔

نویں صدی میں نارویجین حملہ آور اپنے جہاز لے کر سین پر اترے لیکن جزیرہ کے قلعے کو فتح نہ کر پائے۔“

ثریا حسین نے اس سفر نامے میں بہت سے ادیبوں کا ذکر بھی کیا ہے، جن میں موپاساں، برگ ساں، موزاٹ اور فرائڈ شامل ہیں۔

Comments

- Advertisement -