تازہ ترین

چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آج روانہ ہوگا

چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آج چین...

دیامر: مسافر بس کھائی میں گرنے سے 20 مسافر جاں بحق، متعدد زخمی

دیامر: یشوکل داس میں مسافر بس موڑ کاٹتے ہوئے...

وزیراعظم نے گندم درآمد اسکینڈل پر سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی کو ہٹا دیا

گندم درآمد اسکینڈل پر وزیراعظم شہبازشریف نے ایکشن لیتے...

پی ٹی آئی نے الیکشن میں مبینہ بے قاعدگیوں پر وائٹ پیپر جاری کر دیا

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے...

پروین رحمان قتل کیس میں ملزمان کی نظربندی کا حکم غیرقانونی قرار، آئی جی سندھ کی سخت سرزش

کراچی : سندھ ہائیکورٹ نے پروین رحمان قتل کیس میں ملزمان کی نظربندی کا حکم غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ملزمان کی نظر بندی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں ڈائریکٹر او پی پی پروین رحمان قتل کیس میں بری ہونےوالے ملزمان کی نظربندی کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔

سیکریٹری داخلہ سندھ سعیداحمد ،آئی جی سندھ غلام نبی میمن ودیگر عدالت میں پیش ہوئے، ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا کہ یہ درخواست قابل سماعت نہیں۔

جس پر جسٹس کےکےآغا نے کہا کہ آپ لوگ بد نیتی پرمبنی فیصلے کرتے ہیں اور یہاں آکراعترافی کررہےہیں ،جب ہائی کورٹ نےبری کرنے کا حکم دیا تو نظربندی کا کیا جواز؟ آپ کو فیصلے پر اعتراض تھا تو سپریم کورٹ میں اپیل دائرکریں۔

عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو فیصلے پر اعتراض تھا تو سپریم کورٹ میں اپیل دائرکریں، اس طرح کا رویہ ہر گز قابل قبول نہیں ہے۔

جسٹس کےکےآغا نے استفسار کیا اگرملزمان سےنقص امن کاخدشہ ہےتوملزمان کا سی آراوکہاں ہے؟ مسٹرآئی جی آپ پبلک سرونٹ ہیں کسی حکومت کے ملازم نہیں۔

آئی جی سندھ نے بتایا کہ پروین رحمان قتل کیس میں ملزمان کےخلاف ایک ہی مقدمہ درج ہے، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ ہم 15،15 قتل کے ملزمان کو عدم شواہد پر رہا کر دیتے ہیں۔

عدالت نےآئی جی سندھ کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا ان ملزمان کے خلاف ایم پی اوکیوں نہیں لگاتے ؟ عدالت شواہد دیکھتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے ،پروین رحمان کیس کے ملزمان رہا ہو کر کب اور کہاں گئے تھے ؟ ملزمان رہا ہو کر اورنگی ٹاؤن گئے تھے ؟ آپ کو کس نے اطلاع دی کہ ان سے خطرہ ہے ؟

آئی جی سندھ نے بتایا کہ انٹیلی جنس اطلاعات تھیں ملزمان کےحوالے سے ، جس پر عدالت نے سوال کیا آپ کو کسی ایس ایچ او کسی پولیس افسر نے بتایا ؟ تاہم آئی جی سندھ عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔

دوران سماعت عدالت نے سوال کیا ایڈوکیٹ جنرل صاحب بتائیں انکے خلاف کیا کارروائی ہوسکتی ہے ؟ معذرت کیساتھ آپکے محکمے کی انویسٹی گیشن سے مطمئن نہیں، خراب انویسٹی گیشن پر متعدد بار متنبہ کرچکے۔

آئی جی سندھ نے استدعا کی کہ ہمیں ایک اور چانس دے دیا جائے، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ آپ سب کیخلاف خراب انویسٹی گیشن پر کارروائی ہونی چاہیے، ملزمان کو 90 روز کیلئے نظربند کرنا چاہتے ہیں،وضاحت دیں، آپ نے جس طرح انویسٹی گیشن کی، فیصلے میں سب لکھ دیا ،آپ کی انویسٹی گیشن سے بالکل مطمئن نہیں۔

عدالت نے آئی جی سندھ سے مکالمے میں کہا کہ آپ کا کوئی عذر قابل قبول نہیں، آپ ملزمان کو جرائم پیشہ کہہ رہے ہیں مگر شواہد پیش نہیں کرسکے، کس پر آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ تھوڑی مہلت دے دیں تو کچھ تفصیلات پیش کردیں گے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ آپ ملزمان کو سنگین جرائم پیشہ کہہ رہے ہیں سی آر او دیں ،ایس ایس پی ویسٹ نے بتایا کہ انٹیلی جنس اطلاعات تھیں اس بنیادپرجرائم پیشہ لکھاگیا۔

جسٹس کے کے آغا نے ریمارکسابھی آپ کو یہاں سے جیل کیوں نہ بھیج دیں ؟ آپ کو قانون کا نہیں پتا ؟ قانون میں جرائم پیشہ کی تعریف درج ہے، بہت ہوگیا آپ لوگوں نے عدالتی فیصلوں کی حکم عدولی کی انتہا کردی۔

ایس ایس پی ویسٹ نے عدالت کو بتایا مقتولہ کی بہن نے درخواست دی کہ ان کی جان کو خطرہ ہے ، جس پر عدالت نے استفسار کیا انہیں کوئی دھمکی کی فون کال آئی تھی ؟ تو ایس ایس پی ویسٹ کا کہنا تھا کہ نہیں انہوں نے بتایا تھا کہ انہیں خطرہ ہے۔

عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ تھریٹ لیٹر کس نے جاری کیا ؟ کس کے دستخط ہیں ، اےاےجی نے بتایا کہ یہ کانفیڈینشل رپورٹ ہوتی ہےآئی بی کی طرف سے آئی تھی ، جس پر جسٹس کے کے نے کہا کہ سیدھا جواب دیں، سخت حکم جاری کرنے پر مجبور نہ کریں۔

جسٹس کے کے آغا نے سوال جب عدالت نے ملزمان کو بری کردیا تو گرفتاری کا کیا جواز تھا ؟ تفتیش ناقص ہے شواہد تھے تو عدالت میں پیش کرتے۔

عدالت نے آئی جی سے سوال کیا اسپیشل برانچ آپکے ماتحت کام کرتی ہے ؟ آئی جی سندھ نے عدالت میں جواب دیا جی بالکل، جس پر جسٹس کے کے آغا کا کہنا تھا کہ تو یہ لیٹر آپ کے ادارے کا ہے اور پولیس کی کارکردگی سامنے ہے۔

آئی جی سندھ نے بتایا کہ ہمیں آئی بی کے ذمہ دار افسر کا فون آیا تھا انہوں نے خدشہ کا بتایا ، جس پر عدالت نے کہا پولیس کے حوالے سے کارکردگی بتانےکی ضرورت نہیں ، ہمیں نہ بتائیں کہ کام کررہے ہیں جو رپورٹس آتی ہیں اس میں لکھا ہوتاہے۔

آئی جی سندھ نے عدالت میں کہا کہ اندازے اور اطلاعات کی بنیاد پر لیٹر جاری کیا جاتا ہے ،اسیسمنٹ غلط بھی ہوسکتے ہیں ، غلطی کی گنجائش ہوتی ہے۔

عدالت نے سیکریٹری داخلہ سندھ سے استفسار کیا سیکریٹری صاحب آپ کس گریڈ کے افسر ہیں ؟ سیکریٹری داخلہ سندھ نے بتایا کہ میرا گریڈ بیس ہے۔

عدالت نے استفسار کیا آپ بتائیں کون سے شواہد کی بنیاد پر ایم پی او کا فیصلہ کیا گیا ؟ ملزمان 9دن تک باہر رہے بتائیں کوئی شرپسندی کی ؟ کوئی جرم کیا ؟

سیکریٹری داخلہ عدالت کے سولاات سمجھنے سے قاصر رہے اور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے انگریزی سمجھنے میں معاونت کی۔

جسٹس کے کے آغا نے پوچھا آپ میرے سولاات سمجھ رہے ہیں ؟ جس پر سیکریٹری داخلہ نے جواب دیا کہ یس یس آئی انڈراسٹینڈ ، ہم انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔

ایس ایس پی غربی کو عدالت نے روسٹرم پر بلا لیا ، جسٹس کے کے آغا نے کہا بہت ہو چکا معذرت سے اب برداشت نہیں ہوگا ، جسٹس کے کے آغا پھر کہہ رہا ہوں بہت ہو گیا ہے۔

سرکاری وکیل کی جانب سے انٹیلی جنس رپورٹس عدالت میں پیش کی گئی، ایس ایس پی غربی نے بتایا کہ ممکنہ خدشے کے پیش نظر ہم مدعیہ کو سیکیورٹی فراہم کردی ہے۔

سرکاری وکیل کی جانب سے ایس ایس پی غربی معاونت کی کوشش کی گئی ، جس پرسندھ ہائیکورٹ نے سرکاری وکیل کو معاونت سے روک دیا۔

جسٹس کے کے آغا نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کچھ نہیں کرسکتے اپنے الفاظ ایس ایس پی کےمنہ میں مت ڈالیں۔

عدالت نے پھر آئی جی سندھ کو روسٹرم پر بلایا اور استفسار کیا یہ دو رپورٹ کس کی ہیں؟ جس پر آئی جی سندھ نے بتایا کہ ایک انٹیلی جنس بیورو اودوسری رپورٹ اسپیشل برانچ کی ہے۔

عدالت نے کہا کہ آپ نے سیکیورٹی فراہم کردی یہ کیسے سمجھا خطرات لاحق ہیں، آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر بھی ایسے اشارے ملے ہیں ، جسٹس کے کے آغا نے آئی جی سندھ سے مکالمے میں کہا کہ عدالت کو میڈیا کی پرواہ نہیں آپ کو ہوگی، ہم صرف شواہد اورقانون کو دیکھیں گے اور کچھ نہیں۔

جسٹس کےکےآغا کا کہنا تھا کہ سب قانون کے اندر ہوگا، کیا کسی کو 3 ماہ کیلئے شواہد کے بغیر نظر بند کیا جا سکتا، ایمانداری سے بتائیں اسے نظر بند کیوں کیا گیا، آپ کو صرف اپنی جاب کا ذمہ دار ہونا چاہیے۔

آئی جی سندھ نے کہا سر ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ،سچ بتا رہا ہوں ، معاملے میں کوئی بددیانتی نہیں ہے یقین دلاتا ہوں، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ لوگ مسلسل ایک فون کال کو انٹیلی جنس رپورٹ کہہ رہے ہیں ، جب تک سی آر او سے خطرناک ملزم ثابت نہیں کرتے ایم پی او کا جواز نہیں۔

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ حکومت کوانتظامی فیصلے کااختیار ہے اور فیصلے کی اجازت دی جائے، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ آپ ایم پی او کا حکم واپس لیتے ہیں تو کیس ختم ہوجائے گا۔

سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ مجھے کابینہ نے اختیار دیا ہے اس لئے مشاورت کا موقع دیا جائے تو عدالت کا کہنا تھا کہ جائیں آدھے گھنٹے میں حکام سے ہدایات لے کرآئیں اور جواب دیں۔

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے استدعا کی کہ آدھے گھنٹے میں رابطہ ممکن نہیں پلیز کچھ زیادہ وقت دیں، عدالت نے سرکاری وکلا اور سیکریٹری داخلہ کو 12 بجے تک مہلت دے دی۔

بعد ازاں وقفے کے بعد سماعت میں سندھ ہائیکورٹ نے پروین رحمان قتل کیس میں ملزمان کی نظربندی کا حکم غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ملزمان کی نظر بندی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔

Comments

- Advertisement -