ایک مسجد میں اجتماع کے موقع پر ایک عالم نیکی و بدی میں تمیز سکھاتے ہوئے جنّت و دوزخ کا نقشہ کھینچ رہے تھے۔ اسی میں امانت و خیانت، ایمان داری و بے ایمانی کا ذکر آگیا۔
مولوی صاحب نے بڑی بڑی موشگافیاں کیں۔ خوب خوب دادِ تحقیق دی۔ چوری کی ایک ایک کر کے ساری صورتیں بیان کیں۔ ہر ہر پیشہ اور ہنر والوں کے کرتوتوں کو گنوایا، ان کی کھلی ڈھکی چوریوں کو کھول کھول کر حاضرین کے سامنے رکھ دیا۔ یونہی ہوتے ہوتے کہیں درزیوں کا ذکر بھی چھڑ گیا۔ جناب نے ان کے خوب لتے لیے۔ ایسے بخیے ادھیڑے کہ کوئی ٹانکا لگا نہ رہنے دیا۔ گاہکوں کی بے اعتباری اور اس کے نتائج دنیا کے بے ثباتی، آخرت میں خرابی کو پھیلا پھیلا کر دکھایا۔ عقبیٰ کے عذاب، قیامت کے حساب کتاب سے ڈرایا اور یہاں تک فرمایا کہ یہ درزی چھوٹی بڑی چوریاں جتنی کرتے ہیں دنیا میں اگر چھپ بھی جائیں قیامت کے دن سب ’الم نشرح‘ ہو کر رہیں گی۔ یہ لوگ جب اﷲ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہوں گے۔ ایک بڑا سا عَلَم ہر ایک درزی کے ہاتھ میں ہوگا اور اس پر عمر بھر کے چرائے ہوئے کپڑے، حتیٰ کہ ذرا ذرا سی کترنیں بھی، لٹکتے ہوں گے۔ ساری خدائی ان کی چوری کا یہ تماشا دیکھے گی اور درزیوں کی بڑی رسوائی ہوگی۔ یہ چوری اس کے لیے عذاب و ایذا کا آلہ بن جائی گی۔
اتفاق سے اس مجلسِ وعظ میں کسی طرف کوئی درزی بھی بیٹھا تھا۔ اسے نجانے کیوں یہ محسوس ہوا کہ مولوی صاحب نے اُسی کو دیکھ کر اپنی تقریر کا یہ پرداز ڈالا ہے۔ اس نے جو یہ چبھتی ہوئی، حق لگتی ہوئی باتیں سنیں تو دل ہی دل میں بہت کٹا اور توبہ کی کہ چوری کے پاس نہ جاؤں گا۔ بہت دنوں تک وہ اپنے اس عہد پر قائم بھی رہا۔
گاڑھا گزی، ململ لٹّھا، نینونین سُکھ معمولی کپڑوں کا کیا ذکر ہے اچھے اچھے ریشمی کپڑے، مخمل، اطلس، کام دانی، گل بدن کے تھان کے تھان اس کی دکان پر آتے، مگر کتر بیونت کے وقت کبھی اس کو ان میں سے کچھ کتر لینے کا خیال بھی نہ آتا۔
اتفاق کی بات ایک دن ایک گاہک آیا اور ایک بڑھیا سا تھان کپڑے کا لایا۔ دولھا کا جوڑا بننا تھا۔ وہ ناپ تول دے کر اپنی راہ گیا۔ استاد تھان لے کر بیٹھے الٹ پلٹ کر دیکھا، جی للچایا۔ منہ میں پانی بھر آیا۔ رال ٹپکنے لگی۔ دل نے کہا۔ اس میں تو کچھ بچانا ہی چاہیے۔ ایمان پکارا، خبردار، کیا کرتا ہے، توبہ نہیں کر چکا ہے؟
درزی نے تھان اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا۔ مگر کپڑا جلدی سی کر دینا تھا، اس لیے پھر اٹھا لیا اور پھر وہی کش مکش شروع ہوگئی۔ آخر پرانی عادت، نئی توبہ پر غالب آگئی اور استاد نے کہا، ایں ہم بر سرِ علَم۔ یعنی جہاں ہزاروں ٹکڑے کپڑے کے قیامت کے دن میرے علَم پر ہوں گے، ان میں ایک یہ بھی سہی۔
یہ ایک قصّہ ہے جس میں صداقت کچھ نہ ہو، مگر یہ فارسی کی ایک مشہور ضربُ المثل ہے۔ اگر اس کا اردو میں ترجمہ کریں تو اس طرح ہوگا کہ ‘یہ بھی جھنڈے پر سہی۔’ اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہاں ہزاروں گناہوں کی پوٹ سَر پر ہو، ایک گناہ اور سہی۔
سچ یہ ہے کہ ہمیں اگر کوئی بُری عادت پڑ گئی ہو اور ہم کچھ وقت کے لیے اس عادت کو ترک بھی دیں تو جیسے ہی موقع ملتا ہے وہ یونہی عود کر آتی ہے جیسا کہ اس درزی کے ساتھ ہوا۔